Maktaba Wahhabi

289 - 702
﴿نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ﴾ (القصص: ۳) ’’ہم تجھ پر موسیٰ اور فرعون کی کچھ خبر حق کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿نَحْنُ نَقُصُّعَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ہٰذَا الْقُرْاٰن وَ اِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَo﴾ (یوسف: ۳) ’’ہم تجھے سب سے اچھا بیان سناتے ہیں ، اس واسطے سے کہ ہم نے تیری طرف یہ قرآن وحی کیا ہے اور بے شک تو اس سے پہلے یقیناً بے خبروں سے تھا۔‘‘ یہ تلاوت و قراء ت اور قصص جنابِ جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ سے تھی۔ رب تعالیٰ اپنے بھیجے رسول کے واسطے سے اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور اپنے حکم سے جو چاہتا ہے وحی بھیجتا ہے۔ اسی لیے ان امور کا ذکر جمع کے صیغوں کے ساتھ آیا ہے۔ کیونکہ مطاع اپنے لشکر کے واسطے جو کرتا ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’یہ ہم نے کیا ہے۔‘‘ فرشتے یہ اللہ کے اس کے امر و خلق میں قاصد و پیامبر ہیں ۔ لہٰذا رب تعالیٰ ان کے واسطے جو امر فرماتا ہے یا جو پیدا کرتا ہے اس بارے فرماتا ہے کہ ’’یہ ہم نے کیا۔‘‘ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿فَاِِذَا قَرَاْنٰ۔ہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗo﴾ (القیامۃ: ۱۸) ’’تو جب ہم اسے پڑھیں تو تو اس کے پڑھنے کی پیروی کر۔‘‘ صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’یعنی اس قرآن کو تمھارے دل میں جمع کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر ہم اسے تیری زبان سے پڑھیں گے۔ پس جب جبرائیل اس کو پڑھا کریں تو اسے توجہ سے سنا کر۔ یہاں تک کہ وہ پڑھ کر فارغ ہو جائیں گے۔‘‘[1] جیسا کہ ایک اور آیت میں رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰٓی اِلَیْکَ وَحْیُہٗ﴾ (طٰہٰ: ۱۱۴) ’’اور قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر، اس سے پہلے کہ تیری طرف اس کی وحی پوری کی جائے۔‘‘ یعنی جناب جبرائیل کی قراء ت کے ختم ہونے سے قبل اسے قراء ت کرنے کی جلدی نہ فرمائیے۔ بلکہ ان کی قراء ت کے ختم ہونے تک اسے سنیے۔ پھر اس کے بعد جو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے، اسے پڑھیے اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جمع کرنا ہمارے ذمے ہیں اور یہ کہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہم پڑھیں گے اور جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے جائیں تو اسے لوگوں کے سامنے بیان فرمائیے۔
Flag Counter