Maktaba Wahhabi

281 - 702
مجھے اس بات کا حکم نہیں میں اپنے دل سے کسی چیز کے حدوث کی گواہی نہ دوں ۔ قائل کا یہ قول کہ ’’جو نہ تھا وہ فنا ہو جائے گا اور جو ہمیشہ سے تھا وہ باقی رہے گا‘‘ اگر تو اس قول سے اس کی مراد یہ ہے کہ وہ مامور بہ صورت پر باقت رہے گا، وہ یوں کہ وہ اس بات کی شہادت دے کہ حق تعالیٰ اپنے ماسوا ہر چیز کا خالق و محدث ہے اور اپنے پیدا کیے اسباب کے ذریعے محدث ہے اور جس حکمت کا اس نے ارادہ کیا ہے اس کے ذریعے محدث ہے، تو یہ حق ہے اور اگر اس کی مراد یہ ہے کہ میں کسی مخلوق کے وجود کی کبھی شہادت نہ دوں بلکہ صرف قدیم ذات کی ہی شہادت دوں تو یہ ایمان، توحید اور تحقیق میں نقص ہے اور یہ جہل و ضلال کے باب میں سے ہے اور جب یہ بات بندے کے قلب پر غالب آ جائے تو وہ معذور کہلاتا ہے اور اس کا اللہ اور اس کے رسول کے امر میں سے ہونا کتاب و سنت اور اجماع کے خلاف ہے۔ جب یہ ان کی مراد تھی تو موصوف نے یہ کہا ’’یہ خواص کی وہ توحید ہے جو علم فنا کے ذریعے درست ہوتی ہے اور علم جمع میں نکھرتی ہے اور ارباب جمع کی توحید کی طرف کھینچتی ہے۔‘‘ یہاں جمع سے مراد اس بات کی شہادت دینا ہے کہ ساری کی ساری چیزیں رب تعالیٰ کی خلق و مشیت میں جمع اور اس کے ارادہ سے صادر ہوتی ہیں ۔ یہاں کسی مثال کو دوسری پر ترجیح نہیں اور نہ مامور اور محظور میں ، حسن اور قبیح میں اور نہ اولیاء اللہ اور اعداء اللہ میں کوئی فرق ہے۔ اس جمع پر وقوف پر جنید وغیرہ اہل اللہ اور اہل حق نے انکار کیا ہے کہ وہ دوسرے فرق کا حکم کرتے ہیں جو اس جمع کے ساتھ اس بات کی شہادت دینا ہے کہ رب تعالیٰ نے مامور اور محظور میں فرق کیا ہے۔ چنانچہ ایک چیز اسے محبوب ہے تو دوسری مبغوض ہے۔ کسی پر ثواب دیتا ہے تو کسی پر عقاب۔ لہٰذا بندہ اللہ اور اس کے رسول کی محبوبات سے محبت کرے اور جن باتوں سے اللہ اور اس کے رسول کو بغض ہے، یہ بھی ان سے بغض رکھے اور جمع میں فرق اور فرق میں جمع کی شہادت دے۔ لہٰذا نہ تو جمع محض اور نہ فرقِ محض کی ہی شہادت دے۔ موصوف کا قول کہ ’’یہ توحید اربابِ جمع کی توحید کی طرف کھینچتی ہے‘‘ اس کی تفصیل آ جاتی ہے۔ ان لوگوں نے اسی چشمہ سے پیا ہے جس سے ان تقدیر کی نفی کرنے والوں نے پیا ہے کہ ان کا یہ قول ہے کہ ’’امر یہ تازہ (اور غیر استعمال جدید) ہوتا ہے۔‘‘ ان کا قول ہے کہ جب ایک چیز کی بابت اس کا علم اور حکم سابق ہے تو اس کے خلاف امر دینا ممتنع ہے اور ایسی چیز کا وجود میں آنا واجب ٹھہرا۔ اس قول میں دراصل امر و نہی دونوں کا ابطال ہے۔ لیکن یہ لوگ امر و نہی کی تعظیم کرنے والے تھے، ان کا گمان تھا کہ علم و حکم میں سابق چیز کا اثبات اس کے منافی ہے لہٰذا انھوں نے شرع کو تو ثابت کیا جبکہ تقدیر کی نفی کر دی۔ ان لوگوں کا بھی یہ اعتقاد ہے کہ لیکن انھوں نے تقدیر کا اثبات تو کیا لیکن تقدیر کی شہادت دینے والے سے اس بات کی نفی کر دی کہ وہ کسی چیز کو اچھا سمجھتے ہوئے اس کا امر کرے یا اسے برا سمجھتے ہوئے اس سے روکے۔ پس انھوں نے تقدیر
Flag Counter