Maktaba Wahhabi

271 - 702
دوسری باتوں کے شعور سے وہ عاجز ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ حق کو سن کر مرنے یا بے ہوش ہو جانے والا معذور ہوتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پہاڑ پر رب تعالیٰ کی تجلی دیکھ کر بے ہوش ہو گئے تھے۔ البتہ یہ حال نہ تو ہر سالک کی غایت ہے اور نہ ہر سالک کو لازم ہے جیسے بعض لوگوں کا گمان ہے کہ ایسا ہر سالک کو لازم ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ۔ چنانچہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور سابقین اولین افضل ہیں لیکن یہ فنا ان حضرات میں سے کسی کو بھی لاحق نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ قرآن سنتے وقت نہ تو کسی کو موت کا حادثہ پیش آیا اور نہ وہ بے ہوش ہوا۔ یہ بے ہوشی وغیرہ تابعین میں شروع ہوئی تھی اور ان میں سے بھی بالخصوص بصریوں میں ۔ بعض لوگوں نے اسے سیر عارفین کا منتہی اور غایت قرار دیا ہے۔ یہ ماقبل مذکورہ مؤقف سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ ابویزید بسطامی[1] کا یہ قول نقل کیا جاتا ہے: ’’(اس) جبہ میں صرف اللہ ہے‘‘ اور یہ کہ ’’بھلا ابو یزید کہا ہے؟ میں اتنے اتنے برسوں سے اسے تلاش کرتا پھر رہا ہوں ۔ وغیرہ وغیرہ۔[2] تو علماء نے ان اقوال کو اسی باب سے قرار دیا ہے۔ اسی لیے ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب وہ ہوش میں آتے تھے تو ان باتوں پر انکار کرتے تھے۔ بلاشبہ یہ اور اس جیسی دیگر باتیں کفر ہیں ۔ البتہ اگر کسی سبب سے عقل جاتی رہے تو آدمی ایسی باتوں میں معذور گردانا جاتا ہے۔ جیسے نیند اور بے ہوشی میں عقل زائل ہو جایا کرتی ہے اور غیر مکلف ہونے کی حالت پر آدمی کا مواخذہ نہیں ہوا کرتا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسی باتیں عقل و تمیز کے کمزور ہونے کی وجہ سے صادر ہوتی ہیں ۔
Flag Counter