Maktaba Wahhabi

223 - 702
’’تو کیا وہ شخص جو مومن ہو وہ اس کی طرح ہے جو نافرمان ہو؟ برابر نہیں ہوتے۔‘‘ کیونکہ پوری آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں فاسق سے مراد مکذِّب ہے، کیونکہ آگے ارشاد ہے: ﴿وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰیہُمُ النَّارُ کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَآ اُعِیْدُوْا فِیْہَا وَ قِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَo﴾ (السجدۃ: ۲۰) ’’اور رہے وہ جو نافرمان ہوئے ؛تو ان کا ٹھکانا آگ ہے، جب کبھی چاہیں گے کہ اس سے نکلیں اس میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا آگ کا وہ عذاب چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘ رب تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ انھیں تکذیب کی پاداش میں عذابِ آخرت ہو گا اور یہ مکذِّب کا وصف ہے ناکہ عاصی کا۔ یہ لوگ جمہور کے ساتھ خوارج کو یہ جواب دیتے ہیں کہ اگر مرتکب کبیرہ کافر ہوتا تو مرتد کہلاتا ہے اور اس کا قتل بھی واجب ہوتا۔ جبکہ رب تعالیٰ نے زانی کو کوڑے مارنے کا، چور کے ہاتھ کاٹنے کا اور تہمت طراز کو کوڑے مارنے کا حکم دیا ہے اور سنت رسول شرابی کو کوڑے لگانے کی ہے۔ یہ صریح نصوص بتاتی ہیں کہ زانی، چور، شراب نوش اور تہمت طراز کافر اور واجب القتل مرتد نہیں ہیں ۔ پس وہ انھیں کافر قرار دے گا وہ نص قرآنی اور سنت متواتر کا مخالف ہو گا۔ پھر ان کا خوارج اور معتزلہ کو یہ بھی کہنا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَo اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo﴾ (الحجرات: ۹۔۱۰) ’’اور اگر ایمان والوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ پلٹ آئے تو دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ مومن توبھائی ہی ہیں ، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ کہ رب تعالیٰ نے ان دونوں جماعتوں کو باہمی قتال اور ظلم و زیادتی کے باوجود ’’مومنین‘‘ کا نام دیا ہے اور ان میں صلح کرا دینے کا حکم بھی دیا ہے اور انھیں قتال نہ کرنے والے اس مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے جو ان میں صلح جوئی کر رہا ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوا کہ یہ ظلم و زیادتی نہ تو ایمان سے خارج کر دیتی ہے اور نہ ایمانی بھائی چارے سے ہی نکال دیتی ہے۔ مرجئہ کہتے ہیں : ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : ’’وہ ہم میں سے نہیں ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ ہم جیسا نہیں یا یہ کہ وہ ہمارے برگزیدہ اور نیکوکار لوگوں میں سے نہیں ۔
Flag Counter