Maktaba Wahhabi

195 - 702
ان کے بعض کو اس نے درجوں میں بلند کیا اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو واضح نشانیاں دیں اور اسے پاک روح کے ساتھ قوت بخشی۔ اور اگر اللہ چاہتا تو جو لوگ ان کے بعد تھے آپس میں نہ لڑتے، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکیں اور لیکن انھوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے کوئی تو وہ تھا جو ایمان لایا اور ان سے کوئی وہ تھا جس نے کفر کیا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے اور لیکن اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔‘‘ لیکن اختلاف کا لفظ جب مطلق بولا جاتا ہے تو وہ سب کا سب مذموم ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَo اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ ولذلک خلقہم ﴾ (ہود: ۱۱۸۔۱۱۹) ’’اور وہ ہمیشہ مختلف رہیں گے۔ مگر جس پر تیرا رب رحم کرے؛ اور اسی لیے انہیں پیدا کیا ہے۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’بے شک تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہوئے کیونکہ انھوں نے اپنے پیغمبروں سے کثرت کے ساتھ سوال کیے اور ان سے اختلاف کیا۔‘‘[یہ حدیث پہلے گزرچکی ہے] اس لیے اس مقام پر اختلاف کی تفسیر یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ سارے کا سارا ہی مذموم ہے۔ فراء کا قول ہے ان کے اختلاف کی دو صورتیں تھیں : (۱) بعض کا بعض کتاب سے انکار کرنا (۲) اور بعض کتاب کا بدلنا اور بات یہی ہے جو فراء نے کہی ہے۔ کیونکہ سب اختلاف کرنے والوں کے ساتھ حق اور باطل ملا جلا ہوتا ہے۔ پس ان میں سے ایک اس حق کا انکار کر ہا ہوتا ہے جو دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ اس باطل کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے جو دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے اور یہی حق بات کو بدلنا ہے۔پس ضروری ہے کہ اختلاف ان دونوں قسموں کو جامع ہو، اس لیے سب اسلاف نے اختلاف کی مختلف انواع ذکر کی ہیں ۔ جیسے: ۱۔ اس دن میں اختلاف کرنا جس میں اجتماع ہوتا ہے اور یہ جمعہ کا دن ہے اور اس میں اختلاف کرتے ہوئے ایک جماعت نے یہ دن ’’ہفتہ‘‘ کو بنا لیا اور دوسری یہ دن ’’اتوار‘‘ کو بنا لیا۔ صحیحین میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہم (دنیا میں ) سب سے آخر میں آنے والے (اور) قیامت میں سب سے پہلے (جنت میں جانے والے) ہیں حالانکہ انھیں ہم سے پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں ان کے بعد دی گئی۔ پس یہ وہ دن ہے جس میں ان لوگوں نے اختلاف کیا اور اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور لوگ اس میں ہمارے تابع ہیں ۔ آج کا دن ہمارا ہے، کل کا یہود کا اور پرسوں کا نصاریٰ کا ہے۔‘‘[1]
Flag Counter