Maktaba Wahhabi

163 - 702
اکثر علماء کا قول ہے کہ اب سورج غروب ہونے تک نماز میں تاخیر کرنے کا جواز باقی نہیں رہا۔ اور جس کسی نے یہ کہا ہے کہ تاخیر کرنا جائز ہے؛ تو وہ پھربھی نماز پڑھے گا؛ بھلے وہ اپنے اجتہاد سے تاخیر بھی کردے۔ اور پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ : چونکہ اس نے اپنے اجتہاد سے تاخیر کی ہے؛ اس لیے اس کا شماران اہل وعید میں نہیں ہوگا جو اس حدیث میں مذکور ہیں : (( من ترک صلاۃ العصرِ فقد حبِط عملہ ۔))[سبق تخریجہ ] ’’جس نے عصر کی نماز ترک کردی؛ اس کے اعمال تباہ ہوگئے ۔‘‘ پس بیشک بنا بر تأویل ایسا کرنے والا مجتہد خطا کار ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( إِن اللہ تجاوز لِی عن أمتِی الخطأ والنِسیان۔))[سبق تخریجہ ] ’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے میری امت کے خطا و نسیان کو معاف کردیا ہے ۔‘‘ یہ حدیث حسن ہے۔ نیز اس پر قرآن کریم اور صحیح احادیث مبارکہ دلالت کرتی ہیں ۔ ہاں جو کوئی انسان کو اس کے واجب ہونے کا حکم جانتے ہوئے جان بوجھ کر فوت کردے؛ یا اس کے بعض واجبات کو ترک کردے؛ او روہ ان کے واجب ہونے کا حکم جانتا بھی ہو۔ تو اس مسئلہ میں علمائے کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے۔ لیکن ان تمام اقوال میں یہی کہا گیا ہے کہ : وقت کے فوت ہو جانے کے بعد بھی اس کا ادا کرنا صحیح ہوگا۔ اور ایسا کرنا اس کے پر واجب ہے۔ اورجو کچھ وہ کرے گا؛ اس پر اسے ثواب ملے گا؛ اور اس کے ترک کرنے پر اسے سزا جھیلنا پڑے گی۔ جیسے کوئی نماز ظہر میں عصر کے وقت تک تأخیر کرے؛ اور مغرب اور عشاء میں بلا عذر رات کے آخری حصہ تک تاخیر کرے۔ یہ قول امام احمد ؛ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہم اللہ کا ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے: ہر نماز کو اس کے وقت میں دوہرانا واجب ہے۔ پس اگر وقت گزر گیا تب بھی اس کا اعادہ واجب ہوگا۔ جب کہ امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر اہل مدینہ فرق کرتے ہیں ؛ جو نماز وقت میں دوہرائی جائے گی؛ اور جو وقت گزرنے کے بعد دوہرائی جائے گی ۔ پس جو چیز فرض نہ ہو؛ بلکہ واجب ہو؛ اسے وہ سنت کا نام دیتے ہیں ۔ اور جب نماز کو اس وقت پر چھوڑ دیا جائے تو اس کے دوہرانے کا حکم دیتے ہیں ؛ جیسے کوئی نجاست کے ساتھ نماز پڑھ لے۔ اور جو چیز فرض ہو؛ جیسے رکوع؛ اور سجدہ؛ اور طہارت ؛تو ان کا تارک ایسے ہی ہے جیسے کسی نے نماز پڑھی ہی نہ ہو؛ اسے وقت کے بعد بھی دوہرایا جائے گا۔ بہت سارے لوگوں نے وقت میں اور وقت کے بعد اعادہ کی اس تقسیم کا انکار کیا ہے۔ علامہ مزنی رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ پر تیس مسائل کے رد میں ایک کتاب لکھی ہے؛ ان میں سے ایک یہ مسئلہ بھی ہے۔ اور ایسے ہی مزنی رحمہ اللہ نے شیخ ابوبکر الابہری اور ان کے ساتھی قاضی عبدالوہاب رحمہما اللہ پر بھی رد کیا ہے۔ ان کا سارا سرمایہ ہے کہ : بیشک اگر نماز کو اس کے وقت میں ایسے ادا کردیا جائے؛ جیسے حکم دیا گیا ہے؛ تو پھر اس پر کوئی اعادہ نہیں ؛ نہ ہی وقت میں ؛اور نہ ہی وقت کے بعد۔ اور اگر ویسے نہ ادا کرے جیسے انسان کو حکم دیا گیا ہے؛ تو یہ نماز اس کے ذمہ میں باقی ہے۔ وہ اس کا اعادہ کرے گا؛ بھلے وہ وقت میں ہو یا وقت کے بعد۔اور اہل مدینہ کہتے ہیں : اس کا وقت میں ادا کرنا واجب ہے؛ کسی ایک کے لیے ہرگز
Flag Counter