Maktaba Wahhabi

151 - 702
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے، اس لیے نہ تو بری بات کرے اور نہ جہالت کی بات کرے؛ اگر کوئی شخص اس سے جھگڑا کرے یا گالی گلوچ کرے تو کہہ دے میں روزہ دار ہوں۔‘‘ [صحیح بخاری:ج1:ح 1820] امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں اس مسئلہ میں تین اقوال ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ: وہ یہ بات اپنے دل میں کہے؛ اور اسے کوئی جواب نہ دے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: وہ اپنی زبان سے جواب دے۔ یہ بھی فرق کیا گیا ہے کہ فرض روزہ میں زبان سے بول کر جواب دے؛ اور نفل روزہ میں اپنے دل میں ہی کہہ دے۔ اس لیے کہ فرض روزہ مشترک ہوتا ہے۔اور نفل روزہ میں ریاء کا خوف محسوس ہوتا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ اپنی زبان سے کہے؛ جیسے حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔ اس لیے کہ مطلق قول زبان سے ادا کئے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جب کہ نفس کے اندر کی بات مقید ہوتی ہے۔ جیسے یہ قول:’’جو ان کے جی میں خیالات آئے ۔‘‘ پھر ارشادفرمایا: ’’ جب تک بات نہ کرے؛ یا اس پر عمل نہ کر گزرے ۔‘‘ پس مطلق کلام وہ کلام ہے جو سنا جا سکتا ہو۔جب وہ اپنی زبان سے کہے : میں روزہ سے ہوں ؛ تو وہ اپنی زبان کو جواب سے روک رکھنے میں اپنے عذر کا اظہار کررہا ہے۔ اس میں اس انسان کے لیے زیادہ زجر و توبیخ ہے جس نے اس کے ساتھ لڑائی شروع کی ہے۔ ٭ صحیحین میں ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جو کوئی جھوٹی بات ؛ اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے؛ تو اللہ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ ‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ دار پر کھانا پینا غلے اور پانی کسی ضرورت کی وجہ سے حرام نہیں ٹھہرایا۔جیسے آقا اپنے غلام کے ساتھ کرتا ہے۔ بلکہ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنا اور تقوی کا حصول ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ؛ اور ایسے کام کرتا ہے جن میں نہ ہی اللہ تعالیٰ کی محبت ہے نہ ہی رضامندی۔ تو پھر اس عمل پر اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ لیکن اسے تارک عمل کی طرح سزا بھی نہیں ہوگی ۔ ٭ اللہ کی بارگاہ میں مقبول نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں ۔ اسی لیے صحیح حدیث میں آتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ ؛ اور رمضان سے رمضان ؛ درمیانی گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ ‘‘[2]
Flag Counter