Maktaba Wahhabi

105 - 702
یہ فاسد فہم اور بہت بڑی غلطی ہے۔ یہ کسی کم ترایمان اور علم والے انسان کے ساتھ بھی ایسا گمان کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔ کوئی یہ گمان کرے کہ کسی انسان پر گناہ کرنے میں اس لیے کوئی ملامت نہیں کہ گناہ اس کے مقدر میں لکھا جا چکا تھا۔ اور وہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی خبریں بھی سنتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم اور قوم عاد و ثمود کو کیسے عذاب دیا گیا۔ قوم فرعون؛ اہل مدین اور اور قوم لوط اور دیگر لوگوں کا کیا حشرا ہوا۔ قدر [تقدیر] تمام مخلوق کو شامل ہوتی ہے۔ اگر گناہ کرنے والا معذور ہو تو پھر ان لوگوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب نہ دیا جاتا۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کو سرکشوں کے خلاف کن سزاؤوں کے ساتھ مبعوث کیا تھا؛جیسا کہ تورات اور قرآن میں بھی ہے؛ اور جو اللہ تعالیٰ نے فسادیوں پر حدود قائم کرنے اور کافروں سے قتال کرنے کا حکم دیا۔ اور پھر جو اللہ تعالیٰ نے ظالم سے مظلوم کو انصاف دلوانا مشروع ٹھہرایا ہے۔ اور جو قیامت کے دن اس کے بندوں میں فیصلہ ہوگا؛ کافروں کو عذاب دیا جائے گا۔اور مظلوم کو ظالم سے بدلہ دلوایا جائے گا۔ یہ بات کئی جگہ پر ہم تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔ یہاں پر مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ انسان پر جو بھی مصیبت آتی ہے؛ وہ اس کے نصیب میں لکھی جاچکی ہوتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کرلے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ اِِلَّا بِاِِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہُ﴾ [التغابن ۱۱] ’’کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لائے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے ۔‘‘ حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اس سے مراد وہ آدمی ہے جس پر کوئی مصیبت آتی ہے؛ تو وہ جانتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس وہ اس پر راضی رہتے ہوئے سر تسلیم خم کر لیتا ہے۔ والی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے؛ فرمایا:’’اس کے دل کو یقین کی طرف ہدایت دیں گے ۔‘‘ ابن سائب اور ابن قتیبہ رحمہما اللہ نے کہا ہے:’’بیشک یہ وہ آدمی ہے؛ جب وہ آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے؛ تو صبر کرتا ہے؛ اور جب اس پر انعام کیا جاتا ہے تو وہ شکر گزاری کرتا ہے۔ اور جب ظلم کیا جاتا ہے تو معاف کردیتا ہے۔ اگر مصیبت والد یا دادا کے فعل کی وجہ سے تھی۔تو بیشک حضرت آدم علیہ السلام نے بھی تو وہ درخت کا پھل کھانے سے توبہ کر لی تھی۔ تو اب ان پر کوئی ملامت توبہ کے بعد نہیں کی جاسکتی۔ اور یہ مصیبت مقدر میں لکھی جا چکی تھی۔ تو اس پر حضرت آدم علیہ السلام کو ملامت کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ پس کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ اگر کسی مؤمن کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اسے تکلیف دے۔ مؤمن یا تو معذور ہے؛ یا پھر مغفور لہ ہے اور اکثر طور پر جو کوئی مصیبت کسی کی وجہ سے آتی ہے؛ بھلے وہ بعض اغراض کے فوت ہونے کی صورت میں ہو؛تو لوگ اس پر لعن و ملامت کرنے میں جلد بازی کرتے ہیں ۔ جیسا کہ بعض روافض کرتے ہیں ۔ روافض کا خیال ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر او رعثمان رضی اللہ عنہم اپنے ظلم کی وجہ سے ان کا حق روکنے میں سبب بنے تھے۔ یہ ان حضرات پر بہت بڑا جھوٹا الزام ہے۔ اور پھر کہتے ہیں : ہم ان کے ظلم کی وجہ سے
Flag Counter