Maktaba Wahhabi

101 - 702
’’لوگ ایک ہی امت تھے، پھر اللہ نے نبی بھیجے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے، اور ان کے ہمراہ حق کے ساتھ کتاب اتاری، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں انھوں نے اختلاف کیا تھا اور اس میں اختلاف انھی لوگوں نے کیا جنھیں وہ دی گئی تھی، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح دلیلیں آ چکیں۔‘‘ اور اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہُ اِِلَی اللّٰہِ﴾ [الشوری ۱۰] ’’ اور وہ چیز جس میں تم نے اختلاف کیا، کوئی بھی چیز ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔‘‘ اور اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ﴾ ( النساء:۵۹) ’’اگر کسی بات میں تمہارے یہاں تنازع پیداہو جائے تو اسے اﷲ و رسول کی طرف لوٹاؤ۔‘‘ امت کے درمیان جملہ امور مشترکہ میں صرف اور صرف کتاب و سنت کا فیصلہ ناطق ہو گا نہ کہ کسی عالم و امیر یا کسی شیخ و سلطان کا فیصلہ ۔اور جو کوئی یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ وہ لوگوں کے مابین کچھ بھی فیصلہ کرسکتا ہے؛ اوروہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ نہ کرے؛ تو وہ کافر ہے۔ مسلمان حکمران چند متعین امور میں فیصلے کرتے ہیں ۔ وہ کلی امور میں فیصلے نہیں کرتے۔ اور جب متعین امور میں فیصلے کرتے ہیں تو ان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کریں ۔ اگرکتاب اللہ میں حکم نہ ملے تو پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ؛ اور اگر وہاں بھی کوئی حکم نہ ملے تو پھر حکمران اپنی رائے سے اجتہاد کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں ، دو قاضی دوزخی اور ایک جنتی ہو گا۔‘‘ ۱۔ جو قاضی حق کو معلوم کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرے وہ جنت میں جائے گا۔ ۲۔ جو قاضی حق کو جاننے کے باوجود اس کے برخلاف فیصلہ کرے وہ جہنمی ہو گا ۳۔ جو جہالت کی بنا پر لوگوں کا فیصلہ کرے وہ دوزخ میں جائے گا۔[1] جب کوئی شخص علم و عدل کی روشنی میں فیصلہ کرے اور اس کا اجتہاد مبنی بر صواب ہو تو اسے دو اجر ملیں گے اور اگر اس کا اجتہاد درست نہ ہو تو وہ ایک اجر کا مستحق ہے۔[2] جیساکہ صحیحین میں دو مختلف اسناد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
Flag Counter