’’بے شک سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا وہ بیٹا فوت ہو گیا جو سیدہ ام سلیم کے بطن سے تھا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے گھر والوں سے کہا: تم میں سے کوئی ابوطلحہ کو اس کے بیٹے کی وفات کا نہ بتائے بلکہ میں انہیں خود بتاؤ ں گی۔وہ باہر سے آئے۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے انہیں شام کا کھانا پیش کیا۔ انہوں نے خوب کھایا پیا اور سیر ہو گئے۔ پھر ام سلیم نے معمول سے زیادہ ان سے دل لگی کی باتیں کیں اور زیب و زینت کی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہا سے ہم بستری کی۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ ابو طلحہ نے اپنا من چاہا کھانا کھا لیا اور اس سے اپنی حاجت پوری کر لی تو یوں بات شروع کی: اے ابوطلحہ! آپ کی کیا رائے ہے اگر کسی قوم نے کسی گھر والوں کو کوئی چیز امانت دی ہو پھر وہ اپنی امانت طلب کریں تو کیا گھر والے ان کو ان کی امانت نہ لوٹائیں گے؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ نامناسب ہے۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: تو آپ اپنے بیٹے کی وفات پر اجر کی امید رکھیں ۔
(بقول راوی) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو غصہ آ گیا۔ پھر کہا تم نے مجھے مہلت دی میں جب پیٹ بھر کر تم سے لپٹ چکا تو اب مجھے میرے بیٹے کی خبر دے رہی ہو؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا واقعہ بتایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یوں دعا دی: اللہ تعالیٰ تم دونوں کے لیے یہ رات مبارک بنائے۔
(بقول ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ) ام سلیم حاملہ ہو گئیں ۔
(بقول راوی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم سفر تھے اور ام سلیم بھی ان کے ساتھ تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس مدینہ پہنچتے تو رات کو شہر میں داخل نہ ہوتے۔ قافلہ جب مدینہ کے قریب ہوا تو ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دردِ زہ شروع ہو گیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس رک گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو گئے۔ بقول راوی ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے یوں دعا کی: اے میرے رب! تجھے تو علم ہے کہ مجھے
|