میں نے کہا: اس میں یہ حکمت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو اجر ملیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ، یہ بات اسی طرح ہے۔ جس مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے وہ کانٹا ہو، پھوڑا ہو یا اس سے کوئی چھوٹی یا بڑی تکلیف ہو مگر اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کی خطائیں معاف کر دیتا ہے اور اس کے گناہ اس سے محو کر دیتا ہے، جس طرح کوئی درخت اپنے پتے گراتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب غزوہ حنین کا دن تھا تو مال غنیمت کی تقسیم کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ترجیح دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ دئیے اور اتنے ہی سیدنا عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ کو دئیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے معززین کو اس دین عطیات دئیے اور انہیں تقسیم میں دوسروں پر ترجیح دی۔ ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! اس تقسیم میں عدل سے کام نہیں لیا گیا اور نہ اس میں اللہ کی رضا کی تلاش کی گئی ہے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور اس کی خبر دوں گا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی جو اس آدمی نے کہی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو کر خالص سونے کی طرح ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((فَمَنْ یَعْدِلُ اِذَا لَمْ یَعْدِلُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ؟ ثُمَّ قَالَ: یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی قَدْ اُذِیَ بِاَکْثَرَ مِنْ ہٰذَا فَصَبَر فَقُلْتُ: لَا جَرَمَ لَا اَرْفَعُ اِلَیْہِ بَعْدَہَا حَدِیْثًا)) [1]
’’جب اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے تو پھر کون عدل کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے، انہیں اس سے زیادہ اذیت پہنچائی گئی۔ انہوں نے پھر بھی صبر کیا۔
(بقول راوی) میں نے کہا: بلاشک! آج کے بعد میں کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک
|