((تَعْبُدِ اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکْ بِہٖ شَیْئًا وَ تُقِیْمَ الصَّلَاۃَ وَ تُوْتِیَ الزَّکَاۃَ وَ تَصِلَ الرَّحِمَ)) [1]
’’تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔‘‘
گزشتہ بحث میں ہمارے لیے درج ذیل دروس و مواعظ پنہاں ہیں :
۱۔ والدین اور اقارب کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ہم کہتے ہیں احسان تمام اعمال خیر کو محیط ہے۔ یہاں عطف معنوی ہے مقدر ہے یعنی ان کے ساتھ دل سے محبت کی جائے۔ ان کی ملاقات کے لیے جانا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا وغیرہ۔ سب کچھ اس میں شامل ہے اور مالی تعاون بھی ان کے ساتھ کرنا ضروری ہے جو ان میں سے ضرورت مند ہو۔ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے لکھا: ضرورت مند کی مالی معاونت کے بغیر صلہ رحمی کا کوئی فائدہ نہیں ۔
۲۔ بے شک آیات کریمہ میں ایمان اور اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا اور والدین کے ساتھ احسان کرنے کو ایک ساتھ ملا دیا گیا ہے اور آیت کریمہ میں دو منفی چیزوں سے منع کر دیا گیا ہے ایک قولی ہے اور ایک فعلی ہے۔
قولی یہ کہ منہ سے والدین کو ترش جواب نہیں دینا چاہیے حتیٰ کہ ان کی باتیں سن کر ’’اُف‘‘ تک کہنے سے روک دیا گیا ہے۔
اور فعلی کہ جس سے منع کیا گیا ہے وہ والدین پر ہاتھ اٹھانا ہے اور یہ دونوں (قول و فعل) احسان کی ضد ہیں ۔
۳۔ بے شک اللہ تعالیٰ کا محبوب ترین نماز اور جہاد کے درمیان والدین کے ساتھ احسان اور ان کی خدمت ہے۔
۴۔ صلہ رحمی ان اعمال میں سے ایک ہے جو جنت میں لے جانے کے سبب ہیں اور یہ مالی
|