جب سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا مال اللہ کے لیے صدقہ کرنا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:
((بَخْ! ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ، ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ! وَ قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَ اِنِّیْ اَرَی اَنْ تَجْعَلْہَا فِی الْاَقْرَبِیْنَ۔ فَقَسَمَہَا اَبُوْ طَلْحَۃَ فِیْ اَقَارِبِہٖ وَ بَنِیْ عَمِّہٖ))[1]
’’تو ٹھہر جا! یہ نفع بخش مال ہے۔ یہ نفع بخش مال ہے۔ تو نے جو کہا میں نے سن لیا، میری رائے ہے کہ تو اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دے۔ تب ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب اور اپنے چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا۔‘‘
جس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کے لیے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:
((فَہَلْ لَکَ مِنْ وَالِدَیْکَ اَحَدٌ حَیٌّ؟ فَقَالَ نَعَمْ بَلْ کِلَاہُمَا، قَالَ فَتَبْتَغِیْ الْاَجْرَ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَارْجِعْ اِلٰی وَالِدَیْکَ فَاَحْسِنْ صُحْبَتَہُمَا)) [2]
’’کیا تمہارے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے؟ اس شخص نے کہا: جی ہاں ، بلکہ وہ دونوں زندہ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ سے اجر لینا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے والدین کے پاس چلے جاؤ اور ان سے حسن سلوک جاری رکھو۔‘‘
آخر میں ہم یہ حدیث تحریر کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت کی قربت اور جہنم سے بعد والے اعمال کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|