Maktaba Wahhabi

222 - 370
ہو اور ان کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں ہیں ۔ پس تو ایک طرف کا ہوکر اپنا چہرہ دین کے لیے سیدھا رکھ، اللہ کی اس فطرت کے مطابق، جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی پیدائش کو کسی طرح بدلنا ( جائز) نہیں ، یہی سیدھا دین ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ ہر آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے تفسیر و تدبیر کی دعوت دی ہے مثلاً: ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّلْعَالَمِیْنَ﴾ ’’بے شک اس میں جہانوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔‘‘ ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ﴾ ’’بے شک اس میں تفکر و تدبر کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں ۔‘‘ ﴿ لِقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ﴾ ’’سننے والوں کے لیے۔‘‘ ﴿ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ﴾ ’’عقل والوں کے لیے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ قرآن کریم نے تفکر و تدبر کے بغیر آباء و اجداد کی اندھی تقلید کی مذمت کی ہے اور جو لوگ غور و فکر نہیں کرتے۔ نہ وہ بصیرت کو کام میں لاتے ہیں اور نہ وہ سنتے ہیں وہ لوگ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ قرآن کے مطابق وہ چوپایوں سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور قرآن کریم نے آخرت میں ایسے لوگوں کو جہنم کا ڈراوا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَo﴾ (الاعراف: ۱۷۹) ’’اور بلاشبہ یقینا ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم ہی کے لیے پیدا کیے ہیں ، ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں ، یہ لوگ چوپاؤ ں جیسے ہیں ، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ، یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں ۔‘‘ قرآن کریم میں عملی تجربے کی مثال آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں کی ہے۔ جس میں یہ وضاحت ہے کہ قابیل حیرت زدہ ہو گیا کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کا کیا کرے۔ پھر کوے کا
Flag Counter