Maktaba Wahhabi

178 - 370
اپنے ہم مجلسوں ، دوستوں اور رشتہ داروں کے مکمل ہم آہنگی اور لطیف جذبات کے ساتھ نرم دلی کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ ہر وقت دوسروں کی مدد کرنے پر آمادہ رہتا ہے۔ سخاوت اور وفا اس کی نمایاں صفات ہوتی ہیں ۔ کیونکہ اس کی عقل کا مرکز اس کا دماغ ہوتا ہے اور اس پر کوئی بیرونی عامل اس قدر اثر انداز نہیں ہوتا کہ اس کی طبعی حالت الٹ دے۔ کیونکہ عقل الٰہی نور ہے اس سے راہیں روشن ہوتی ہیں اور انسان ان روشن راہوں پر چل کر بقائمیٔ ہوش و حواس اپنے سفر کا اختتام بخیر و عافیت کرتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الْعَقْلَ، قَالَ لَہٗ: اَقْبِلْ فَاَقْبَلَ، ثُمَّ قَالَ لَہٗ: اَدْبِرْ فَاَدْبَرَ، ثُمَّ قَالَ لَہٗ: وَ عِزَّتِیْ وَ جَلَالِیْ مَا خَلَقْتُ خَلْقًا اَعَزَّ عَلَیَّ مِنْکَ، بِکَ اُعَذِّبُ وَ بِکَ اُثِیْبِ)) ’’سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عقل پیدا کی اور اسے حکم دیا تو آگے آ! وہ آگے آئی۔ پھر اسے حکم دیا کہ تو پیچھے جا! وہ پیچھے چلی گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے یوں مخاطب کیا: ’’میری عزت اور میرے جلال کی قسم! میں نے تجھ سے بڑھ کر اپنے لیے کوئی عزت والی مخلوق پیدا نہیں کی۔ میں تیرے ذریعے عذاب دوں گا اور تیرے ذریعے ثواب دوں گا۔‘‘ عقل کو ’’الحجر‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ انسان کو ہر اس عمل سے روکتی ہے جو خلاف مروّت ہو۔ لیکن انسان جب شراب پیتا ہے تو وہ بالکل پاگل اور مخبوط الحواس ہو جاتا ہے۔ اسے اچھے برے کی پہچان نہیں رہتی اور نہ نفع بخش اور ضرر رساں کی خبر رہتی ہے۔ گویا کہ وہ احساس و شعور سے مکمل طور پر بیگانہ ایک حیوان کا روپ دھار لیتا ہے۔ قرابت داروں یا معاشرے کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رہتی اور بعض اوقات وہ نشے کے زیر اثر چور اور زانی تک بن جاتا ہے۔[1]
Flag Counter