زنا سکینت اور شرعی طریقے سے نسل کشی کا الٹ ہے۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً﴾ (الروم: ۲۱)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھی سے بیویاں پیدا کیں ، تاکہ تم ان کی طرف (جاکر) آرام پاؤ اور اس نے تمھارے درمیان دوستی اور مہربانی رکھ دی۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَّ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَۃً وَّ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ…﴾ (النحل: ۷۲)
’’اور تمھارے لیے تمھاری بیویوں سے بیٹے اور پوتے بنائے اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا۔‘‘
جس زنا سے حد واجب ہوتی ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ زندہ عورت کی قبل (رحم کی طرف سے) حرام طریقے سے زنا کیا جائے اس حیثیت سے کہ زنا کرنے والا نہ تو عورت کا مالک ہو نہ اس کے ساتھ اس کا نکاح ہو اور نہ شبہ نکاح ہو۔ اگر کوئی آدمی کسی عورت سے درج بالا طریقے سے اپنی مرضی سے زنا کرے تو وہ حد زنا کا مرتکب ہو گا۔[1]
جب زانی یا زانیہ شادی شدہ یا غیر شادی ہو تو اسی اعتبار سے انہیں سنگساری یا کوڑوں کی حد لگے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((خُذُوا عَنِّی قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیلًا الْبِکْرُ بِالْبِکْرِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَنَفْیُ سَنَۃٍ وَالثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ ثُمَّ رَجْمٌ بِالْحِجَارَۃِ وَالْبِکْرُ جَلْدُ مِائَۃٍ ثُمَّ نَفْیُ سَنَۃٍ)) [2]
|