Maktaba Wahhabi

382 - 531
ثابت رضی اللہ عنہ نے ان دونوں بزرگوں سے کیا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ خود قرآن پاک کی کتابت عام نہیں تھی کہ اس کے ساتھ یا اس کے پہلو میں احادیث کی کتابت کا دعوی درست ہوتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرمانا پڑتا: ((أکتاب مع کتاب اللّٰہ؟)) اس زیر بحث منکر روایت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب یہ فقرہ: ((امحضوا کتاب اللّٰہ وأخلصوہ)) اس امر پر دلالت کر رہا ہے کہ قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث بھی قلم بند کی جاتی تھی، جبکہ تمام ائمہ حدیث نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کتابت حدیث کی ممانعت سے جو کچھ سمجھا ہے وہ صرف یہ اندیشہ تھا کہ اس طرح قرآن کے ساتھ غیر قرآن کی آمیزش ہو جائے گی، اگر عملاً ایسا ہوا ہوتا تو ائمہ حدیث اس کا حوالہ دیتے، اور ان کے اس اندیشہ کا سبب یہ تھا کہ صحابہ کرام کی اکثریت قرآن اور غیر قرآن میں تمیز کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی اور قرآن پاک کا غیر معمولی اور بلند معجزانہ اسلوب بیان اس کے ادراک سے باہر تھا۔ گیلانی نے اس منکر روایت سے جو نتیجہ نکالا ہے وہ حدیث کے بارے میں ان کی بیمار ذہنیت کی پیداوار ہے اللہ اور رسول کے کسی حکم پر مبنی نہیں ہے، فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ((أکتاب مع کتاب اللّٰہ؟ امحضوا کتاب اللّٰہ وأخلصوہ)) میں اس خطرے کی طرف اشارہ ہے جو کثرت سے حدیثیں لکھ لینے کے نتیجہ میں رونما ہو سکتا تھا۔‘‘ اور وہ خطرہ ان کے اپنے غیر ذمہ دارانہ الفاظ میں یہ ہے: ’’جن باتوں کی عمومی شکل میں اشاعت مقصود نہیں تھی اس کے مجموعے تیار ہو جاتے اور ان سے ثابت ہونے والے اور قرآنی آیات سے ثابت ہونے والے احکام میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔‘‘ دراصل یہ ہے وہ ’’بس کی گانٹھ‘‘ جس کی خاطر انہوں نے یہ لمبا سفر کیا ہے، اور جس زہر قاتل نے احناف کی اکثریت کے ذہنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور ان کے دلوں میں احادیث رسول کی کوئی لذت باقی نہیں رہی ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کردہ احکام اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یا سنت میں بیان کیے جانے والے احکام میں معمولی سی بھی تفریق نہیں کی ہے۔‘‘ ’’تدوین حدیث‘‘ کے مصنف نے حدیث کی شرعی حیثیت گھٹانے کی راہ میں جو پہلا غلط قدم اٹھایا ہے وہ ان کو حق سے دور کرتا چلا گیا ہے۔ مذکورہ بالا فقرہ کے بعد ذرا ان کا طنطنہ ملاحظہ ہو: ’’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ: حدیث کی کتابت سے اس وجہ سے منع کیا گیا تھا کہ قرآن غیر قرآن میں خلط ملط نہ ہو، تو یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے، کیونکہ کس طرح یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ اور ان کے بعد کے لوگ غیر قرآن کو قرآن سمجھ بیٹھتے، کیا جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا عربوں میں تورات اور انجیل کے متعدد نسخے متد اول نہیں تھے، پھر ان کے حوالہ سے یہ شبہ کیوں نہیں پیدا ہوا؟ اور کیا صحیفہ لقمان عربوں کے پاس موجود نہیں تھا؟‘‘
Flag Counter