Maktaba Wahhabi

468 - 531
ایک ہی اصل میں سمیٹا جا سکتا تھا ثانیا اس میں جن چیزوں کو انہوں نے سنت سے خارج کر دیا ہے وہ خود ان کے اس دعوی کی رو سے سنت میں داخل ہیں کہ : سنت صرف وہی چیز ہوسکتی ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہو ‘‘(پہلا اصول، ص۷۲) کیونکہ قرآن کی رو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر شرعی عمل دین بھی تھا اور سنت بھی۔ جاوید احمد غامدی کا یہ دعویٰ کہ سنت کاتعلق تمام تر عملی زندگی سے ہے یعنی وہ چیزیں جو کرنے کی ہیں ۔[1] ان کے امام امین احسن اصلاحی صاحب ، سید سلیمان ندوی اور محمود ابوریہ کے دعووں کی صدائے بازگشت ہے ، اور ان بزرگوں نے جو کچھ فرمایا ہے وہ دلیل سے عاری ہونے کی وجہ سے محض ان کی ’’بڑ‘‘ ہے اور اصلاحی صاحب کے اس قول کے خلاف بھی کہ: ’’سنت وہ طریقہ ہے جو آپ نے بحیثیت معلم شریعت اور بحیثیت کامل نمونہ کے ،احکام و مناسک کے ادا کرنے اور زندگی کو اللہ تعالیٰ کی پسند کے سانچہ میں ڈھالنے کے لیے عملا و قولا لوگوں کو بتایا اور سکھایا‘‘[2] غور فرمائیے اصلاحی صاحب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے ساتھ آپ کے قول کو بھی سنت قرار دیا ہے ، اور یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ زندگی کو اللہ تعالیٰ کی پسند کے سانچہ میں ڈھالنے کے لیے علم ، عقیدہ اور ایمانیات سرفہرست ہیں جن کی درستگی کے بغیر اعمال کا کوئی اعتبار نہیں ۔ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بتا دوں کہ جاوید غامدی کچھ لکھتے وقت مکمل ہوش میں نہیں ہوتے ،ورنہ علم ، عقیدہ اور ایمانیات کے بیان کے ضمن میں ’’تاریخ اورشان‘‘ نزول کے ذکر کا کیا موقع تھا؟ غامدی صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تفہیم و تبیین قرآن اور اسوہ حسنہ کو بھی سنت سے خارج کر دیا ہے جو ان کے اس دعوی سے متعارض ہے : سنت کا تعلق تمام عملی زندگی سے ہے یعنی وہ چیزیں جو کرنے کی ہیں ‘‘ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی احکام کی جو تفہیم و تشریح اور تفسیر فرمائی ہے اور امت کے لیے جو اسوہ حسنہ پیش فرمایا ہے ، کیا اس لیے نہیں کہ اس پر عمل کیا جائے اور اس کی پابندی کی جائے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو کیا معنی دیں گے کہ :’’اللہ کے رسول کے اندر تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے ۔‘‘ (الاحزاب:۲۱) ا س کے بعد غامدی صاحب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نمازوں ، نفل روزوں اور نماز کے دوران کے اذکارو ادعیہ اور تشہد اور درود وغیرہ کو بھی سنت کے دائرہ سے باہر کر دیا ہے ، جبکہ متعدد صحیح احادیث میں ان کاتاکیدی حکم دیا گیا ہے ۔ امام اورمقتدی میں اختلاف: قارئین کے لیے یہ بات باعث دلچسپی ہوگی کہ غامدی کے امام اصلاحی صاحب نے حج کے تمام اعمال اور نماز کے مختلف فیہ اعمال اور اس کے اذکار و اوراد اور تشہد کو عین سنت قرار دیا ہے شاید ان کے شاگرد رشید یا مقلد و مقتدی کو ساتوں
Flag Counter