Maktaba Wahhabi

490 - 531
اللہ تعالیٰ اپنے کسی فعل کے بارے میں جواب دہ نہیں ہے: اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایا ہے : ﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْئَلُوْنَ، ﴾ (الانبیاء:۲۳) ’’وہ جو کچھ کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے باز پر س نہیں کی جا سکتی، جبکہ لوگوں سے پوچھا جائے گا۔‘‘ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کی بابت جو فیصلے کیے ہیں ان کے بارے میں وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے سورہ رعد میں اسی بات کو دوسرے الفاظ میں بیان فرمایا ہے : ﴿اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا وَ اللّٰہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ وَ ہُوَ سَرِیْعُ الْحِسَاب﴾ (الرعد:۴۱) ’’کیا لوگوں نے دیکھا نہیں کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے کم کرتے چلے آرہے ہیں اور اللہ فیصلہ کرتا ہے اس کے فیصلے پر نظرثانی کرنے والا کوئی نہیں اور وہ جلد حساب لینے والا ہے ۔‘‘ عقیدہ طحاویہ: امام ابوجعفراحمد بن محمد بن سلامہ طحاوی متوفی ۳۲۱ھ رحمہ اللہ نے عقیدہ کے موضوع پر جو چھوٹا سا، مگر نہایت جامع رسالہ لکھا ہے اور جو عقیدہ طحاویہ کے نام سے معروف ہے اس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمدرحمہم اللہ کے عقائد بیان کیے ہیں یہی دراصل اسلاف اور تمام محدثین کے بھی عقائد ہیں ، متاخرین احناف کے یہ عقائد نہیں ہیں ، کیونکہ ان میں صوفیوں اور ماتریدی متکلمین کے عقائد بھی داخل ہو گئے ہیں ، جیسا کہ برصغیر کے اکابر علمائے احناف صراحت کرتے رہتے ہیں حدیث کی تشریعی حیثیت ، اور حدیث اور عقل میں نزاع کی صورت میں حدیث کو رد کر دینے سے متعلق متاخرین احناف کا نقطہ نظر متقدمین احناف کے نقطہ نظر سے مختلف ہے ۔ مولانا امین احسن اصلاحی حدیث کے قبول ورد سے متعلق متاخرین احناف کے نقطہ نظر کے پرزور حامی ہیں انہوں نے تمام لوگوں کو جنت یا دوزخ میں ڈال دینے کے جس مسئلہ کو ’’عقل کے دشمنوں ‘‘ کا قول کہہ کر اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کے خلاف قرار دیا ہے اس کے بارے میں میں امام طحاوی کا قول نقل کر دینا چاہتا ہوں تاکہ قارئین کویہ معلوم رہے کہ یہی اسلاف کا عقیدہ تھا ، فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے جنت اور جہنم بنا دی ہے اور جس کو وہ چاہے گا اپنے فضل سے جنت میں داخل کر دے گا اور جس کو چاہے گا اپنی صفت عدل کے مطابق جہنم میں ڈال دے گا ۔[1] اس کے بعد لکھتے ہیں :
Flag Counter