Maktaba Wahhabi

436 - 531
رہا کسی بھی حدیث کے غیر محفوظ ہونے اور ضائع ہونے کا دعوی تو ایسا دعوی کرنے والا بالواسطہ قرآن کے غیر محفوظ ہونے کا بھی دعویدار ہے، کیونکہ یہ دین جس کا نام اسلام ہے اس کے دونوں ماخذ… قرآن و حدیث… خود قرآن کی رو سے اپنی تشریعی حیثیت میں یکساں اور مساوی درجہ رکھتے ہیں ، اور ان میں سے کسی ایک کے کسی حصے کا ضائع ہو جانا بھی اس دین میں نقص کا متقاضی ہے جو اس دین کے کمال کے منافی ہے، لہٰذا اگر قرآن محفوظ ہے تو لازماً ساری حدیثیں بھی محفوظ ہیں ، البتہ جس طرح قرآن کے محفوظ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارے مسلمانوں کو اس کا تفصیلی علم ہو اور سب اس کے حافظ ہوں اسی طرح صحیح حدیثوں کے محفوظ ہونے کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام لوگوں کے علم میں ساری صحیح حدیثیں ہوں ، بلکہ ہر دور میں امت کے ایسے افراد کا رہنا ضروری ہے جو مجموعی طور پر صحیح حدیثوں کا علم رکھتے ہوں ایسے افراد سے یہ دنیا کبھی خالی نہیں ہو گی۔ فرمان عمری: امام بخاری رحمہ اللہ کتاب العلم کے ۳۴ ویں باب: ((کیف یُقبَضُ العلمُ)) ’’کس طرح علم سمیٹ دیا جائے گا؟‘‘کے تحت فرماتے ہیں : ((وکتب عمر بن عبد العزیز الی أبی بکر بن حزم: انظر ما کان من حدیث رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فاکتبہ، فانی خفت دروس العلم وذَھَاب العلماء)) [1] ’’اور عمر بن عبد العزیز نے ابو بکر بن حزم کو فرمان لکھا کہ: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کو بغور تلاش کر کے ضبط تحریر میں لے آؤ، اس لیے کہ مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے۔‘‘ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ۶۱ھ مطابق ۶۸۰ء میں پیدا ہوئے اور نشوونما مصر میں پائی جہاں ان کے والد عبد العزیز بن مروان گورنر تھے، ان کی پیدائش اور نشوونما کے وقت جہاں خاصی تعداد میں صحابہ کرام زندہ تھے وہیں اکابر تابعین کے وجود سے مملکت اسلامیہ کے شہر اور قصبات منور تھے اور یہ دونوں مقدس گروہ دل و جان سے احادیث رسول کی تعلیم، تبلیغ اور ترویج و اشاعت میں منہمک تھے، اسی پر فضا اور علمی ماحول میں عمر بن عبد العزیز کی تربیت ہوئی اور عین جوانی میں انہوں نے حافظ حدیث، مجتہد اور فقیہ کی حیثیت سے شہرت پائی، زہد و عبادت کے اعلی مقام پر پہنچے، خلافت کو مکمل طور پر خلافت راشدہ بنا دیا اور پانچویں خلیفۂ راشد قرار پائے اور متعدد ائمہ امت نے ان کو پہلا مجدد قرار دیا۔ عمربن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ابو بکر بن حزم کو احادیث قلم بند کرنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ وہ مدینہ منورہ میں ان کے گورنر تھے اور عمر چاہتے تھے کہ جس طرح جمع قرآن کا کام شہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں انجام پایا ہے اسی طرح احادیث کی
Flag Counter