Maktaba Wahhabi

443 - 531
پہنچا تو ان کو کبھی خشک نہ ہونے والا علم کا سمندر پایا۔‘‘[1] قاسم بن محمد بن ابو بکر: قاسم بن محمد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت (۳۵ھ ۔۴۰ھ) میں کسی وقت پیدا ہوئے اور ۱۰۵ھ میں وفات پائی۔ قاسم اپنے وقت میں حدیث کے امام اور حافظ تھے ان کے فخر کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ خلیفہ اول ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے اور تربیت یافتہ تھے جن کی خدمت میں رہ کر انہوں نے حدیث کا علم حاصل کیا تھا۔ ام المؤمنین کے علاوہ قاسم بن محمد نے حبر الأمۃ عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحبت اور ہم نشینی اختیار کر کے ان سے بھی حدیث کا علم حاصل کیا تھا اور صحیح معنوں میں حافظ حدیث تھے۔[2] عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے تدوین حدیث کی مہم انجام دینے کے لیے نہ صرف یہ کہ اس وقت کے اکابر امت اور حفاظ حدیث کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں ، بلکہ اپنی وسیع و عریض سلطنت کے ہر ہر حصے میں تعینات اپنے گورنروں کے نام یہ فرامین جاری کر دئیے تھے کہ وہ اہل علم اور محدثین کو سنت کی تدوین پر آمادہ کر لیں اور جو لوگ اس کام کے لیے فارغ اور یکسو ہو جائیں بیت المال سے ان کے لیے مشاہرے مقرر کر دیں ، تاکہ معاش کی جانب سے وہ بے فکر ہو کر کام کریں ۔[3] عمربن عبد العزیز۱۰۱ھ مطابق ۷۱۹ء میں وفات پا گئے اور ان کو اپنے اس ’’مشن‘‘ کے ثمرات اور نتائج کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا موقع نہیں ملا، لیکن ان کی وفات سے، ان کے حکم سے شروع ہونے والی یہ باقاعدہ مہم اور ان سے قبل ان کے والد عبد العزیز کی انفرادی تدوین حدیث کا علم رک نہیں گیا اور نہ رک سکتا تھا، کیونکہ یہ بے آمیز اور خالص دینی عمل تھا جس کی اہمیت سے سب واقف تھے اور جس کو اس کے انجام تک پہنچانا سب کا نصب العین تھا، اور عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اس مہم کی انجام دہی کی ذمہ داری جن کے سپرد کی تھی وہ نہ صرف یہ کہ حدیث کے امام تھے، بلکہ اس کے ساتھ ان کو یہ عمل جاری رکھنے کا کافی وقت بھی ملا، چنانچہ ابو بکر بن حزم نے ۱۱۷ھ اور ۱۲۰ھ کے درمیان کسی وقت وفات پائی اور امام زہری کی وفات ۱۲۴ھ میں ہوئی، اس طرح تدوین حدیث میں ایک لمحہ کے لیے بھی توقف نہیں ہوا۔ میں حقائق و ارقام کی زبان میں یہ واضح کرتا آ رہا ہوں کہ قرآن اور حدیث دونوں کی حفاظت بنیادی طور پر زبانی
Flag Counter