Maktaba Wahhabi

247 - 531
’’اے نبی! تم بھی مرنے والے ہو اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں ۔‘‘ یہ آیتیں سننے کے بعد حضرت عمر پر سکتہ طاری ہوگیا اور ان کے پاؤں ان کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہے، یعنی اس وقت ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا یقین ہوا، گویا انہوں نے اس سے قبل سورۂ آل عمران اور سورۂ زمر کی آیتیں سنی ہی نہیں تھیں ۔‘‘ ان دونوں مثالوں سے معلوم ہوا کہ بڑے سے بڑا صحابی بھی قرآن پاک کی کوئی آیت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد بھول سکتا تھا، لہٰذا اپنی اس بھول یا عدم استحضار کی وجہ سے اس کا کسی حدیث کا انکار حدیث کے رد قبول کا معیار نہیں بن سکتا۔ مذکورہ بالا دونوں مثالوں کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے لیے استغفار اور اس کی نماز جنازہ پڑھنے، حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ اور حدیبیہ میں کفار مکہ کے ساتھ شرائط صلح کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے روئیے اور نقطہ ہائے نظر اگرچہ ان کی غیرت دینی، کفارو منافقین سے ان کے شدید بغض اور راہ حق میں ان کی صلابت وا ستقامت ہی کا نتیجہ تھے مگر بسا اوقات اسلام کے اعتدال پسند مزاج سے متصادم ہوجانے کی وجہ سے نہ قابل تقلید نمونہ قرار دیے جا سکتے ہیں اور نہ ان کو اسلام کا اصول قرار دیا جا سکتا ہے، بلکہ ان کا شمار ہمیشہ ان کے تفردات ہی میں ہوگا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف: رہیں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو ام المومنین ہونے کی حیثیت سے ان کا مقام و مرتبہ مسلم ہے، ان کا فہم دین اور اصابت رائے بھی ناقابل تردیدہے، لیکن حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی اس زیر بحث حدیث اور اس سے قبل غزوۂ بدر کے مقتولین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب کرنے اور گھر والوں کے رونے سے میت کے عذاب دیے جانے کی حدیثوں کی عدم صحت کے بارے میں ان کے نقطہ ہائے نظر ان کے ذاتی اجتہادات اور ان کے اپنے فہم قرآن کے ترجمان تھے اس وجہ سے ان کو کسی حدیث کے قبول و رد کا معیار نہیں دیا جا سکتا۔ گزشتہ صفحات میں غزوۂ بدر کے مقتولین اور میت کے گھر والوں کے رونے سے اس کے مبتلائے عذاب ہونے والی حدیثوں سے متعلق ان کے موقف کا تفصیلی جائزہ لے کر خود قرآن پا ک کے دلائل کی روشنی میں یہ دکھایا جا چکا ہے کہ مذکورہ دونوں حدیثوں میں سے کوئی بھی حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے، بلکہ ان کے فہم قرآن کے خلاف ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی بھی شخص کا وہ کسے باشد فہم قرآن یا تفسیر قرآن حجت نہیں ہے۔ اب رہا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا واقعہ اور مطلقہ مبتوتہ کے سکونت ونفقہ کے عدم استحقاق کے بارے میں ان کی روایت کردہ حدیث پر عدم صحت کا حکم تو یہ مردود ہے، کیونکہ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
Flag Counter