Maktaba Wahhabi

467 - 531
ام المومنین نے ’’خلق‘‘ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری سیرت پاک مراد لی ہے، مطلب یہ ہے کہ قرآن میں اوامر و نواہی اور حدود و آداب کی شکل میں جو کچھ ہے آپ اس کی مکمل تصویر تھے ۔ لیکن غامدی صاحب نے اس کے بعد جو یہ فرمایا ہے : ’’اللہ تعالیٰ کے نبی اس کا دین پہنچانے ہی کے لیے مبعوث ہوئے ، ان کے علم و عمل کا دائرہ یہی تھا اس کے علاوہ اصلا کسی چیز سے انہیں دلچسپی نہیں تھی‘‘ منصب رسالت کی نہایت ناقص تعبیر ہے اور ایک ایسے شخص کے قلم سے حد درجہ تعجب خیز ہے جو قرآن پر غور و تدبر کا دعوے دار اور ایک مفسر قرآن کا شاگرد اور پیرو بھی ، کیونکہ خود قرآن پاک میں ایک سے زائد بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں تلاوتِ کتاب اور تبلیغ دین کے ساتھ تعلیم کتا ب اور تزکیہ نفوس کو بھی شامل کیا گیا ہے اس طرح کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل کا دائرہ رسالت کے دائرہ سے باہر تھا اور آپ کو اللہ کا دین پہنچا دینے کے ساتھ کسی اور چیز سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ قرآن سے بے محل استدلال: فہم قرآن کے دعویدار یہ نئے مجدد دین نہ قرآن کو سمجھتے ہیں اور نہ ان کو شریعت اور اس کی اصطلاحوں کی کوئی معرفت ہی حاصل ہے ، یہ صحیح ہے کہ پورا دین ہی سنت ہے مگر جاوید احمد غامدی اس اصول کے تحت جس سنت کا ذکر کر رہے تھے وہ سنت کے ایک خاص مفہوم سے متعلق ہے ، پھر سورۂ شوری کی اس آیت سے استدلال کا کیا موقع تھا جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے تمام رسولوں خاص طور پر اولو العزم کی بعثت کا بنیادی مقصد پورے دین کی اقامت تھا اور اس معاملے میں ان کے لیے کسی طرح کا تفرقہ اور اختلاف روا نہیں تھا، ارشاد الٰہی ہے: ﴿شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہٖ نُوحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ﴾ (الشوریٰ:۱۳) ’’اس نے تمہارے لیے وہی دین مقررکیا ہے جس کاحکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جس کی وحی (اے پیغمبر اب) ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور جس کی ہدایت ہم نے ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو فرمائی اس تاکید کے ساتھ کہ (اپنی زندگی میں ) اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔‘‘ مذکورہ بالا ترجمہ غامدی صاحب کا ہے جس کے بعض الفاظ کے غلط ترجمہ اور بریکٹ میں غیرضروری اضافوں کو سمجھنے کے لیے آیت کے درج ذیل ترجمہ کو نگاہ میں رکھیے : اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا ، وہ یہ کہ دین کو قائم کرو اور اس میں ایک دوسرے سے الگ الگ نہ ہو۔ سنت اور اسوہ حسنہ: غامدی صاحب نے دوسرے ، تیسرے ، چوتھے، پانچویں اور چھٹے اصولوں کے تحت جو کچھ فرمایا ہے اولا تو ان سب کو
Flag Counter