Maktaba Wahhabi

207 - 531
میں دوسروں کی موت پر نوحہ گری کے عادی رہے ہیں اور لوگون کو اس سے منع بھی نہیں کیا ہے تو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترک پر ان کے اہل خانہ کی نوحہ گری اور گریہ و زاری سے ان کو عذاب بمعنی عقاب دیا جائے گا، امام ابن تیمیہ نے اس تاویل کو امام بخاری اور اپنے دادا ابو البرکات کی طرف منسوب کرتے ہوئے اس کو حدیث کی بہترین تاویل کہنے کے باوجود اس کو ضعیف بتایا ہے اور اس کو حدیث کے مقتضی اور مفہوم کے خلاف قرار دیا ہے اور جن صحابہ نے یہ حدیث روایت کی ہے اس تاویل کو ان کے فہم کے بھی منافی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ [1] ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان سے پہلے کے ائمہ جیسے امام بخاری یا ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ یا دوسرے بزرگوں نے اس حدیث کی شرح و بیان میں سے جو کچھ فرمایا ہے وہ اجتہاد و رائے کے قبیل سے ہونے کی وجہ سے حرف آخر نہیں ہے، اگرچہ قابل احترام اور قابل استفادہ ہے۔ ۶۔ برنی اور غزالی کی حدیث دشمنی: ڈاکٹر برنی نے اس زیر بحث حدیث پر اپنے اعتراض میں لکھا ہے کہ ’’اس حدیث کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ مرنے والے کو عذاب اس صورت میں دیا جائے گا جب وہ خود نوحہ و ماتم کا عادی رہا ہو اور اسی طرح اس نے اہل و عیال کی تربیت کی ہو، حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ توجیہہ بہت کمزور ہے اور اس قسم کی توجیہ ہر کمزور روایت کے لیے کی جا سکتی ہے۔‘‘ موصوف نے مذکورہ توجیہہ کو کمزور تو کہہ دیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ کمزور کیوں ہے اور اس پر ایک ردہ یہ چڑھا دیا ہے کہ اس قسم کی توجیہ ہر کمزور روایت کے لیے کی جا سکتی ہے‘‘ ڈاکٹر برنی اپنے قد سے اونچی باتیں کرنے کے عادی ہیں ، حدیث یا دوسرے دینی علوم سے ان کی وابستگی بطور ناقد و معترض کے ہے وہ براہ راست حدیث اور علوم حدیث کی کتابوں سے استفادہ کرنے سے قاصر ہیں اور حوالے امہات الکتب کے دیتے ہیں ان کا سارا سرمایۂ علم اصلاحی صاحب کی کتابیں ہیں ، ان کو شاید یہ معلوم نہیں کہ ’’توجیہہ‘‘ ہمیشہ ایسی عبارت یا نص کی کی جاتی ہے جس کی صحت مسلم ہو، رہی کمزور روایت تو وہ مردود ہے اس کی توجیہ کی کیا ضرورت؟ غور کا مقام ہے کہ جو شخص خود نوحہ اور ماتم کا عادی رہا ہو اور اسی طرح اس نے اپنے اہل و عیال کی تربیت بھی کی ہو‘‘ وہ ڈاکٹر صاحب کی قرآنی شریعت میں قابل گرفت اور قابل سزا نہیں ہے، جبکہ قرآن کے نازل کرنے والے کا فرمان ہے: ﴿قُوْا اَنفُسَکُمْ وَاَہْلِیکُمْ نَارًا ﴾ (تحریم: ۶) ’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔‘‘ اور کیا اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچانے کا طریقہ اس کے علاوہ کچھ اور ہے کہ خود بھی شرعی احکام پر چلا جائے اور اپنے اہل و عیال کو بھی ان پر چلنے کی تلقین اور تربیت کی جائے اور جو اس حکم قرآنی کی خلاف ورزی کرے وہ مستحق سزا قرار پائے۔
Flag Counter