Maktaba Wahhabi

418 - 531
نہ تو قرآن کی طرح مدون کی جائیں ، نہ اس کی طرح محفوظ کی جائیں اور نہ ان کو قرآن کے مانند قطعیت حاصل ہو اور نہ ان کے الفاظ کے ساتھ وہ اہتمام برتا جائے جو اہتمام قرآن کے الفاظ کے ساتھ برتا جاتا ہے، اور نہ ان سے اختلاف و شبہات کا اس طرح ازالہ کیا جائے جس طرح قرآن سے کیا جاتا ہے، بلکہ احادیث کو ایسا ثانوی درجہ حاصل رہے کہ ان میں اجتہاد کی گنجائش باقی رہے، اہل علم اور فقہاء ان میں چھان پھٹک اور غور و خوض کا عمل جاری رکھیں اور وہ محدثین کی بحث و تحقیق کا موضوع بنی رہیں ، تاکہ مسلمانوں کے لیے دین کے معاملات کشادہ رہیں اور ہر پہلو سے اس میں وسعت باقی رہے اور سچ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے: درحقیقت دین آسان ہے‘‘، پھر میں نے کتاب الاسماء والصفات میں زہری کا ایک اثر دیکھا جس میں انہوں نے وحی کی قسمیں بیان کی ہیں اور کہا ہے کہ: اس کی صرف ایک قسم ضبط تحریر میں لائی جائے‘‘ اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں وحی کی صرف ایک قسم کی نہ کہ دوسری کی جمع و ترتیب اصل مسئلہ تھی، ایسا نہیں تھا کہ حدیث کی عدم کتابت پر اتفاق تھا۔‘‘ [1] اس عبارت کے ہر ہر لفظ میں حدیث کے خلاف جو زہر بھرا ہوا ہے اس کا صدور ایک ایسے عالم حدیث کے قلم سے حد درجہ کربناک ہے جس کے وجود کو اس کے مداحوں نے اسلام کی حقانیت کی دلیل قرار دے رکھا ہے، گیلانی نے تو صرف حدیث کی ایک قسم کا درجہ گھٹایا ہے، جبکہ ان کے استاد نے تو پورے ذخیرۂ حدیث کو تشریعی اعتبار سے دوسرے درجے پر رکھ دیا ہے اور احادیث کی عدم کتابت کا سبب اسی کو قرار دیا ہے میں اس عبارت کے اہم فقروں کو کھول کر ان میں چھپے زہر کو قارئین کی نگاہوں کے سامنے لانا چاہتا ہوں ، مگر اپنی اس حیرت و تعجب کا پہلے اظہار کر دینا ضروری خیال کرتاہوں کہ یہ عبارت ارشاد القاری الی فیض الباری‘‘ کے مصنف حافظ محمد گوندلوی اور اس کے جامع عبد المنان نور پوری کی نگاہ تحقیق کی گرفت میں آنے سے کیسے رہ گئی؟ اعتراف فضل: علامہ انور شاہ کشمیری کی مذکورہ بالا عبارت پر تبصرہ کرنے سے قبل میں بطور اعتراف فضل اس حاشیہ کا ترجمہ کر دینا چاہتا ہوں جو فیض الباری کے جامع اور حاشیہ نگار مولانا بدر عالم میرٹھی نے صحیح بخاری میں مروی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول پر لکھا ہے جو انہوں نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور اپنے بارے میں فرمایا ہے اور کہا ہے کہ: ((فانہ کان یکتب ولا اکتب)) وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی مسموعات لکھ لیا کرتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔‘‘ مولانا میرٹھی فرماتے ہیں :
Flag Counter