Maktaba Wahhabi

408 - 531
ترجمہ پیش کر دینا چاہتا ہوں ، پھر ایک ایک کر کے ان کے دعادی کا جائزہ لوں گا اور آخر میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا تبصرہ نقل کروں گا۔ قرطبی کا خلط مبحث ملاحظہ: ان اللّٰہ یمسک… حدیث نمبر ۷۴۱۴… اور حدیث نمبر ۴۸۱۱ میں ان اللّٰہ یجعل کی تعبیر آئی ہے… سے آخری حدیث تک پوری عبارت یہودی کا قول ہے، اور یہودی اللہ کے لیے تجسیم… جسم رکھنے… کا عقیدہ رکھتے ہیں اور یہ عقیدہ کہ اللہ اعضاء رکھنے والا صاحب جسم ذات ہے، یہی عقیدہ اس امت کے وہ لوگ بھی رکھتے ہیں جو اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے ہیں ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسنا محض یہودی کی جہالت پر بطور تعجب تھا، اس لیے آپ نے ﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ﴾ کی تلاوت کی، یعنی انہوں نے اللہ کو اس طرح نہیں پہچانا جیسا پہچاننا اس کا حق تھا اور اس کی ویسی تعظیم نہیں کی جیسی تعظیم کرنی چاہیے تھی‘‘ یہاں تک روایت صحیح اور محقق ہے۔‘‘ راوی نے ’’تصدیقا‘‘کہہ کر جو اضافہ کیا ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، کیونکہ یہ راوی کا قول ہے اور باطل ہے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’محال‘‘ کی تصدیق نہیں کر سکتے تھے اور یہودی نے اللہ تعالیٰ کے جو اوصاف بیان کیے تھے وہ اس کے حق میں محال ہیں ، اس لیے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہاتھ، انگلیاں اور اعضاء رکھتا تو وہ ہمیں میں سے کسی شخص کے مانند ہوتا اور اس کے لیے بھی احتیاج، حدوث، نقص، اور عاجزی اسی طرح لازم ہوتی جس طرح ہمارے لیے لازم ہے،اور اگر ایسا ہوتا تو یہ محال ہوتا کہ وہ معبود ہو، کیونکہ جس ذات کی یہ صفت ہو اگر اس کے لیے ’’الوھیت‘‘ جائز ہوتی تو پھر ’’دجال‘‘ کے لیے بھی الوہیت کا دعویٰ درست ہو گا اور یہ محال ہے لہٰذا جو قول اس نتیجہ پر منتج ہو وہ جھوٹ ہے اسی طرح یہودی کا قول بھی جھوٹ اور محال ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں ﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ﴾ نازل فرمایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس تعجب کا اظہار فرمایا وہ یہودی کی جہالت پر تھا، اور راوی یہ سمجھ بیٹھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی صدق گوئی پر تعجب کیا ہے، جبکہ ایسا نہیں تھا۔‘‘ ’’اگر میری باتوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا جائے کہ: ((ان قلوب بنی آدم بین اصبعین من أصابع الرحمٰن)) صحیح حدیث ہے؟ تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ اگر اس طرح کی بات ہمارے پاس کسی سچی روایت کے ذریعہ آئے تو ہم اس کی تاویل کریں گے یا اس وقت تک وقف کریں جب تک کہ اس کا صحیح مفہوم واضح نہ ہو جائے، رہی یہ بات تو اپنے ظاہری الفاظ کے محال ہونے کی وجہ سے قطعی طور پر محال ہے، کیونکہ جس ذات کی صدق گوئی پر معجزات دلالت کرتے ہوں اس کا سچا ہونا ایک ضروری امر ہے، رہی وہ بات جو ایسے شخص کی زبان سے ادا ہو جس پر کذب بیانی کا حکم لگانا درست ہو ، بلکہ اگر اس طرح کی بات ایسے شخص کی زبان سے ادا ہو جس کے بارے میں صدق گوئی سے موصوف ذات نے خبر دی ہو کہ وہ کذب اور تحریف ہے تو ہم اس کی تکذیب کر دیں گے اور اس کو ناپسند کر دیں گے۔‘‘
Flag Counter