Maktaba Wahhabi

93 - 531
(۲)… اس نے دوسری خیانت یہ کی کہ ’’کتاب‘‘ کو وضع کرنے اور گھڑنے پر محمول کردیا، پھر یہ دعویٰ کر ڈالا کہ زہری نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ امرائے بنو امیہ نے ہمیں حدیث وضع کرنے اور گھڑنے پر مجبور کردیا، حالانکہ کتاب یا کتابت کتب یکتب کے مصدر ہیں جن کے معنی صرف لکھنے اور ضبط تحریر میں لانے کے ہیں۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ امام زہری نے ہشام کی طلب کو مسترد کیوں نہیں کردیا؟ تو اس کا جواب ہے کہ اگر اس کی طلب اور فرمائش عام ہوتی اور اس نے یہ نہ کہا ہوتا کہ وہ چار سو حدیثیں اپنے لڑکے کی تعلیم اور اس کی قوتِ حافظہ جانچنے کے لیے لکھوانا چاہتا ہے تو بلاشبہ ان کے لیے یہ موقع تھا کہ ایسا کرنے سے انکار کردیتے، مگر ایک معقول سبب پر مبنی فرمائش کو اور وہ بھی خلیفہ کی جانب سے رد کردینے کے معنی اس کی مخاصمت مول لینے کے مترادف ہوتے جس کے لیے اخلاقی اور شرعی دونوں میں سے کوئی بھی وجہ جواز نہیں تھی، اس لیے اس کی طلب پوری کردینا ہی قرین عقل و مصلحت تھا، البتہ چونکہ اس سے ان کا اصول ٹوٹ رہا تھا اور بعد میں اس کا غلط مفہوم لے کر روایت حدیث میں ان کی دیانت داری کو نشانہ بنایا جاسکتا تھا اس لیے انھوں نے اس بات کو صیغہ راز میں نہیں رکھا، بلکہ پبلک کردیا اور اپنے شاگردوں کو بھی وہ حدیثیں جوں کی توں لکھوادیں اور یہ عمل ان کی دیانت و امانت داری کے علاوہ ان کی بیدار مغزی پر دلالت کرتا ہے۔ زہری اور اصلاحی: منکرین حدیث چاہے وہ معتزلہ اور خوارج ہوں یا مستشرقین یا مغرب زدہ اہل قرآن مسلمان سب نے حدیث کے شرعی حجت ہونے کا انکار کیا ہے اور حدیث کے ناقابل اعتبار اور ناقابل استدلال ہونے کے بارے میں سب کے نقطہ ہائے نظر میں عجیب یک رنگی اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ معتزلہ اور خوارج نے تو حدیث کا اس وجہ سے انکار کیا تھا کہ اس سے ان کے عقائد کی گمراہی ثابت ہوتی ہے اور قرآن پاک کی جن آیتوں کی انھوں نے من مانی تاویلیں کی ہیں ان کا پول حدیث سے کھل جاتا ہے اس لیے انھوں نے یہ کہہ کر حدیث کے شرعی ماخذ ہونے کا انکار کردیا کہ عقائد کے باب میں ’’خبر واحد‘‘ ناقابل استدلال ہے اور چونکہ خبر متواتر کی تعریف پر علمائے حدیث کا اتفاق نہیں ہے، اور اگر کثرتِ رواۃ کی بنیاد پر کچھ حدیثوں کو متواتر تسلیم کربھی لیا جائے تو ان کی اتنی تعداد نہیں ہوگی کہ وہ تمام اسلامی عقائد کو سمیٹ سکیں ، اس طرح معتزلہ اور خوارج جنس حدیث کے منکرین میں شامل ہوگئے۔ دوسرے متکلمین اور بعض فقہی اسکول بھی خبر واحد کے بارے میں معتزلہ ہی جیسا نقطہ نظر رکھتے ہیں اس لیے انکار حدیث کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا ہے، اگرچہ حدیث کا انکار اس کے شرعی حجت نہ ہونے کا دعویٰ کرکے نہیں کیا جاتا، بلکہ مشاہیر ائمہ حدیث کو مطعون بنا کر اور راویان حدیث کو تفقہ کی صفت سے عاری قرار دے کر ان کی مرویات کی قدر و قیمت کو گھٹایا جاتا ہے، اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو ان شاء اللہ حدیث اور فقہاء کے باب کے تحت کروں گا۔
Flag Counter