Maktaba Wahhabi

500 - 531
بھی دریا میں کود پڑتی ہے اس تناظر میں ایک عظیم ماں کو یہ حکم دینا کہ اگر اس کو اپنے بیٹے کی جان جانے کا خوف ہو تو وہ اسے دریا میں ڈال دے ، عقل کے صریح خلاف تھا ، البتہ اس حکم الٰہی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی تھا جس میں اس نے اپنی مومنہ بندی اور ایک اولوالعزم رسول کی ماں کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ اپنے اس اقدام پر نہ خوف زدہ ہو اور نہ غم زدہ، اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہایت یقینی الفاظ میں دو بشارتیں بھی دی تھیں یعنی وہ ان کے بیٹے کو ان کے پاس واپس لوٹا دے گا اور اس کو رسول بنائے گا : ﴿وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْ اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَ جَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ﴾ ایک غور طلب سوال: موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نبی نہیں تھیں ، لہٰذا ان کو یہ احکام جس وحی کے ذریعہ دیئے گئے تھے وہ اس وحی کی مانند نہیں رہی ہو گی جو انبیاء اور رسولوں پر نازل ہوتی ہے ، لیکن انہیں جو ذمہ داری سونپی گئی تھی وہ بالکل انوکھی ذمہ داری تھی یعنی خود اپنے ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کو دریا میں ڈال دیں ، اگر وہ اس حکم الٰہی کی تعمیل نہ کرتیں تو کیا ان کا یہ طرزِ عمل ابلیس اور اس کے احکام پر چلنے والوں ، دوسرے لفظوں میں عقل پرستوں کے عقلی استدلالات سے زیادہ قوی اور منطقی نہ ہوتا جو اپنی نام نہاد عقل سے متعارض ہونے کی صورت میں قرآنی آیات میں تحریف کرتے ہیں اور حدیث ہونے کی صورت میں اس کا انکار کر دیتے ہیں ؟ لیکن جو کچھ ہوا وہ یہ کہ اس عظیم ماں نے تمام عقلی وسوسوں اور ابلیسی استدلالات کو پیروں سے روند دیا اور حکم الٰہی کی تنفیذ میں اپنی مامتا کے تقاضوں کو شیطانی چال سمجھ کر نظر انداز کر دیا اور پورے اطمینان قلب اور وعدہ الٰہی پر اپنے غیر متزلزل ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے شیر خوار بچے کو دریا کی لہروں کے حوالہ کر دیا اور تسلیم و رضا کی ایک بے مثال داستان رقم کر دی ۔ اسراء اور معراج کا واقعہ : اسراء کا واقعہ قرآن پاک کی سورۃ اسراء کی پہلی آیت اور معراج کا واقعہ سورۃ نجم کی آیات ۸ تا ۱۸ سے بصراحت ثابت ہے ، سورۃ اسراء کی آیت میں اسراء کا مقصد اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا : ﴿لنریہ من اٰیتنا ﴾ تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں ۔ اور سورۃ نجم میں فرمایا: ﴿لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی﴾ یقینا اس نے اپنے رب کی بعض بڑی نشانیاں دیکھیں ۔(۱۸) احادیث میں یہ دونوں واقعات نہایت تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں جن پر محدثین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے اس طرح یہ قطعی الثبوت ہیں اور ان کا انکار دین کے معلوم اور متفق علیہ امور کا انکار ہے ۔
Flag Counter