Maktaba Wahhabi

476 - 531
لیکن یہ وضاحت ضروری ہے کہ قرآن و حدیث دونوں سے حاصل ہونے والے احکام میں سرمو بھی کوئی فرق نہیں ہے ۔ اصلاحی صاحب نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’قرآن مجید جس طرح ہماری زندگی کے ہر گوشہ میں حق و باطل میں امتیاز کے لیے کسوٹی ہے ، اسی طرح حدیث کے معاملے میں بھی اصلاً وہی امتیاز کی کسوٹی ہے ‘‘ تو اس کا پہلا حصہ درست ہے ، لیکن دوسرا حصہ جو حدیث کے معاملے میں کسوٹی ہونے سے متعلق ہے صد فیصد غلط، بلکہ سم قاتل ہے ، کیونکہ قرآن کی طرح حدیث میں بھی حق ہی ہے، باطل کا اس میں گزر نہیں ۔ اصلاحی صاحب کا ذہن حدیث کے بارے میں صاف نہیں تھا ، مگر ایک مفسر قرآن اور دین کے داعی کی حیثیت سے انہوں نے اپنی جو شناخت بنالی تھی اس کے خلاف بھی نہیں جا سکتے تھے اس لیے وہ اس طرح کی غیر واضح، بلکہ متضاد باتیں کہا کرتے تھے۔ ۲۔ دوسرا اصول :ہر حدیث، احادیث کے مجموعی نظام کا ایک جزو ہے : ’’قرآن مجید کی طرح احادیث کا بھی اپنا ایک مجموعی نظام ہے جس سے ہٹ کر نہ تو کسی حدیث کو صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس کی تاویل و توجیہ ٹھیک طورپر ہو سکتی ہے ، چنانچہ اس سلسلے کا دوسرا اصول یہ ہے کہ ہر حدیث احادیث کے مجموعی نظام کا ایک جزو سمجھی جائے گی ہر جزو کے لیے اپنے مجموعی نظام سے پوری طرح ہم آہنگ ہونا ضروری ، اگر کوئی حدیث اپنے مجموعی نظام سے بے جوڑ ہو گی تو وہ رد کر دی جائے گی۔[1] اصلاحی صاحب نے یہ بات نیم خواب اور نیم بیداری میں لکھی ہے ان کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں ۔ قرآن سورۃ فاتحہ سے سورۃ ناس تک ایک مکمل اور منظم کتاب ہے جس کی ہر ہر کڑی سلسلہ بیان میں پیوست ہے ۔ لیکن حدیث قرآن کی تفسیر اور بیان کے ساتھ ساتھ مکمل تشریع ہے اور اخلاق و آداب کا مجموعہ بھی اگر صرف قولی حدیث کو لیں تو یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳ سالہ زندگی پر پھیلی ہوئی ہے ، اس میں قرآنی احکام کی تفصیلات بھی ہیں ، صحابہ کرام کے سوالوں کے جوابات بھی بہت سی غیبی باتوں کی خبریں بھی ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے بہت سے واقعات کی پیشین گوئیاں بھی ، مواعظ و نصائح بھی ہیں اور ایمانیات و عقائد کا بیان بھی ، اور اجمال و تفصیل کے علاوہ قرآن و حدیث میں کسی اختلاف کے نہ ہونے کے باوجود حدیث میں مجموعی نظام کی بات اسی صورت میں کہی جا سکتی تھی یا کہی جا سکتی ہے جب حدیث موضوعات کے اعتبار سے مرتب ہوتی کیا ان وضاحتوں کے بعد حدیث کا علم رکھنے والا کوئی شخص یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ ’’اگر کوئی حدیث اپنے مجموعی نظام سے بے جوڑ ہوگی تو وہ رد کر دی جائے گی؟ پھر اگر حدیث کا یہ مجموعی نظام اتنا ہی اہم تھا تو اس کو مثالوں سے واضح کرنے کی ضرورت تھی دعوی تو بڑے سے بڑا کیا جا سکتا ہے ۔
Flag Counter