Maktaba Wahhabi

422 - 531
کچھ فرما دیا وہ میرے علم کے مطابق چودہ صدیوں میں کسی بدترین منکرین حدیث نے بھی نہیں کہا ہے، میں ان کا ارشاد ایک بار پھر نقل کر دیتا ہوں : …پسندیدہ بات یہ تھی کہ احادیث نہ تو قرآن کی طرح مدون کی جائیں ، نہ اس کی طرح محفوظ کی جائیں ، نہ ان کو قرآن کے مانند قطعیت حاصل ہو، نہ ان کے الفاظ کے ساتھ وہ اہتمام برتا جائے جو اہتمام قرآن کے الفاظ کے ساتھ برتا جاتا ہے، اور نہ ان سے اختلاف و شہبات کا اس طرح ازالہ کیا جائے جس طرح قرآن سے کیا جاتا ہے، بلکہ احادیث کو ایسا ثانوی درجہ حاصل رہے کہ ان میں اجتہاد کی گنجائش باقی رہے، اہل علم اور فقہاء ان کی چھان پھٹک اور غور و خوض کا عمل جاری رکھیں اور وہ محدثین کی بحث و تحقیق کا موضوع بنیں رہیں … عجیب اتفاق: دشمن اسلام محمود ابوریہ اور اس کی رسوائے زمانہ کتاب ’’اضواء علی السنۃ المحمدیۃ‘‘ کا ذکر گذشتہ صفحات میں بار بار آ چکا ہے… اس نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کی جمع و تدوین کے ساتھ جو اہتمام برتا گیا ہے وہ اہتمام حدیث کی جمع و تدوین کے ساتھ نہیں برتا گیا اور اس کو اس نے صحابہ کرام کی کوتاہی پر محمول کیا ہے، ورنہ بقول اس کے ساری احادیث متواتر ہو جاتیں ،[1] لیکن حدیث سے اپنی تمام تر عداوت و دشمنی کے باوجود وہ اس کے خلاف وہ بات کہنے کی جرأت نہ کر سکا جو علامہ کشمیری نے کہہ دی اور حدیث کی عدم کتابت کو یہ کہہ کر ایک پسندیدہ عمل قرار دے دیا کہ اس سے قرآن و حدیث کی تشریعی حیثیتوں میں فرق کو برقرار رکھنا مقصود تھا اس طرح ایک محدث اور اسلام کی حقانیت کی دلیل ’’حدیث کی تشریعی حیثیت کو مشکوک بنانے میں ایک صریح دشمن اسلام سے بازی لے گئے۔ مولانا کشمیری نے حدیث کی عدم تدوین کو امکانات کی قلت کا نتیجہ کہنے کے بجائے پسندیدہ عمل اور غایت مقصود ہ قرار دے ڈالا اور اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد پاک سے جوڑ کر کار نبوت ہی کا ایک حصہ بنا دیا اور استعارہ اور کنایہ کی زبان استعمال کرنے کے بجائے پوری صراحت سے فرما دیا کہ حدیث کی عدم کتابت کا حکم اس لیے تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں چاہتے تھے کہ احادیث قرآن کی طرح مدون ہوں ، اس کی طرح محفوظ کی جائیں اور انجام کار ان کو قطعیت کا درجہ حاصل ہو… تاکہ اس طرح نام نہاد فقہاء اجتہاد کے نام سے اس کو بازیچۂ اطفال بناتے رہیں جس کی مثالوں سے فقہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ موصوف نے اس پر بس نہیں کیا ہے، بلکہ احادیث کے الفاظ کے ساتھ عدم اہتمام اور قرآن کی طرح اختلافات و شبہات سے اس کے پاک نہ ہونے کو بھی شارع علیہ الصٰوۃ والسلام کی مرضی قرار دے ڈالا ہے، تاکہ اس کو ثانوی درجہ حاصل رہے۔ یہاں علامہ کشمیری کی روح سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ حضرت آپ نے دین کے دوسرے بنیادی ماخذ کو مشکوک
Flag Counter