Maktaba Wahhabi

333 - 531
تھا کہ وہ ایسے کسی فعل کا ارتکاب کریں جو ان کے خارج از اسلام ہو جانے پر منتج ہو، اور جس مقدس جماعت کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرما دیا ہے کہ:﴿رَضِی اللّٰہ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہ﴾ ’’اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں ۔‘‘ وہ جہنم کے مستحق قرار پائیں ؟!! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے کوئی ۲۳۰۰ برس قبل کوہ سینا پر موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اس کی رحمت بنو اسرائیل کے ان لوگوں کے حصے میں آئے گی جو نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پائیں گے اور آپ کی پیروی کریں گے، پھر اس سلسلۂ بیان میں اللہ تعالیٰ نے ماضی کے صیغے میں صحابہ کرام کے اوصاف ان الفاظ میں بیان فرمائے ہیں : ﴿فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْن﴾ (الاعراف:۱۵۷) ’’سو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی توقیر کی اور اس کی حمایت کی اور اس روشنی کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے وہی فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرام کے جو روشن اوصاف بیان کیے گئے ہیں کیا ان پر ایک سرسری نظر ڈالنے والا بھی یہ خیال اپنے دل میں لا سکتا ہے کہ اس مقدس اور متبع رسول جماعت یا اس کا کوئی فرد اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے جھوٹی روایتیں گھڑ کر اس دین اور شریعت کی بنیادیں ڈھانے کی کوشش کرتا تھا جس پر چلنے اور جس کی پیروی کرنے کا اس نے صدق دل سے عہد کیا تھا؟!! ۲۔ دوسرا سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زیادہ موقع پر جھوٹی روایتیں گھڑنے والوں کو دوزخ کا مستحق قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والا مسلمان نہیں رہ جاتا اور اس کا ایمان و عمل ضائع ہو جاتا ہے اس مضمون کی حامل حدیثیں ۸۰ سے زیادہ صحابیوں سے صحیح سندوں کے ساتھ مروی ہیں صحیح بخاری میں یہ حدیث درج ذیل الفاظ میں بھی آئی ہے: ((مَن یقل علیَّ ما لم أقل فلیتبوأْ مقعدہ من النار)) (۱۰۹) ’’جس نے میری طرف وہ بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘ اس حدیث کا شمار ثلاثیات بخاری میں ہوتا ہے، ثلاثیات سے مراد وہ حدیثیں ہیں جن کی سندوں میں امام بخاری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف تین راوی ہیں مذکورہ حدیث ثلاثیات بخاری کی پہلی حدیث ہے جس کی سند میں صحابی… سلمہ بن اکوع… سمیت صر ف تین راوی ہیں ۔[1]
Flag Counter