Maktaba Wahhabi

413 - 531
آخر میں وہ امام ابن خزیمہ کا تبصرہ نقل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’ابن خزیمہ نے اس شخص پر سخت نکیر کی ہے جس کا یہ دعوی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی بطور انکار تھی، چنانچہ اپنی صحیح کی کتاب التوحید میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد انہوں نے لکھا ہے:‘‘ ’’اللہ نے اپنے نبی کی قدر و منزلت اس سے کہیں زیادہ بلند بنائی تھی کہ آپ کے سامنے خالق و باری تعالیٰ کا وصف ایسی صفات کے ذریعہ بیان کیا جائے جو اس کی صفات نہ ہوں اور آپ انہیں سن کر ہنس پڑیں اور ایسی بات کہنے والے کی نکیر کرنے اور اس سے غضبناک ہونے کے بجائے اس طرح خندہ زن ہو جائیں کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو جائیں اور کہنے والے کی بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تصدیق فرما دیں ، تو کوئی مومن جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کرتا ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی صفت نہیں بیان کر سکتا۔‘‘[1] اہل کتاب کی تکذیب: گزشتہ صفحات میں قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے اپنی انگلیوں پر آسمانوں اور زمینوں اور درختوں اور ترمٹیوں اور تمام خلائق کو اٹھانے سے متعلق یہودی عالم کی شہادت کی حامل عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تشریح اور اس پر اہل تعطیل کے اعتراضات اور ان کے سنجیدہ علمی جائزے کے بعد حافظ ابن حجر اور امام ابن خزیمہ کے تبصرے بھی نقل کر دئیے گئے ہیں اور بحث کے دوران میں صفات باری تعالیٰ سے متعلق قرآن پاک اور صحیح احادیث کی روشنی میں اہل سنت و جماعت کا عقیدہ بھی بیان کر دیا گیا ہے اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ((لا تصدقوا أھل الکتاب ولا تکذبوھم)) کا صحیح مدعا واضح ہو گیا ہے۔ لیکن جس طرح صفات باری تعالیٰ کے بارے میں اہل کتاب کے درست اعتقاد کی تصدیق و تصویب کی مثال میں دو حدیثیں پیش کر کے یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ان کی عدم تصدیق و تکذیب کا تعلق ان امور سے ہے جن سے کتاب و سنت خاموش ہوں ان امور سے نہیں ہے جن میں اللہ و رسول کا حکم نفیاً یا اثباتا معلوم ہو، اس طرح کم از کم ایک ہی صحیح حدیث کی مثال دے کر یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ ان کی جو باتیں خلاف حق ہیں ان کی تکذیب لازم ہے، تاکہ اس طرح تصویر کے دونوں رخ سامنے آ جائیں اس سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویب و تصدیق کا انداز کیا تھا اور آپ غلط بات اور عقیدے کی تردید کس طرح فرماتے تھے اس طرح ان غلط تاویلوں کو سمجھنا آسان ہو جائے گا جو ابن بطال، خطابی اور قرطبی نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اس کے اصل معنی اور مفہوم سے پھیرنے کے لیے کی ہیں ۔
Flag Counter