Maktaba Wahhabi

519 - 531
اور بلا شبہ اللہ سب پر بلند اور سب سے بڑا ہے ۔‘‘ معتزلہ اور متکلمین نے اہل فلسفہ کی اندھی تقلید میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں جو مغز ماری کی ہے اس نے ان کو کہیں کا نہیں رکھا۔ اہل کلام کی حیرانی اور تذبذب: امام طحاوی رحمہ اللہ نے متکلمین اور ان کے ہم مشربوں کی بڑی مؤثر اور صحیح تصویر پیش کی ہے وہ کلام کے عقلی مباحث میں الجھ کر توحید خالص سے تو دور ہوہی گئے ۔ اس کے علاوہ ان کے حصے میں حیرت و تذبذب کے سوا کچھ نہ آیا، فرماتے ہیں : (فیتذبذب بین الکفر والایمان ،والتصدیق والتکذیب ، والاقرار ، والانکار موسوسًا تائھا، شاکا زائغا، لا مؤمنا مصدقاً ولا جاحدا مکذبا) ’’متکلم کفر و ایمان ، تصدیق و تکذیب، اقرار و انکار کے درمیان حیران رہتا ہے برے خیالات سے مغلوب ہو کر بھٹکتا پھرتا ہے ،شکوک و شبہات میں پڑ کر راہ حق سے دور ہو جاتا ہے نہ تصدیق کرنے والا مومن ہی باقی رہتا ہے اور نہ کھل کر انکار اور تکذیب کرنے والا ہے ۔‘‘ [1] عقیدہ طحاویہ کے شارح علامہ علی بن علی بن ابی العز نے امام طحاوی کی اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے بعض مشاہیر متکلمین کے وہ اعترافات نقل کیے ہیں جن کا اظہار انہوں نے اپنی حیات مستعار کے آخری دنوں میں کیا ہے : ۱۔ مشہور فلسفی اور متکلم محمد بن احمد بن محمد بن رشد اندلسی نے اپنی کتاب ’’تہافت التہافت‘‘میں لکھا ہے: کسی نے الٰہیات کے باب میں کوئی ایسی بات کہی ہے جو شمار کے قابل ہو؟ ۲۔ مشہور فلسفی ، متکلم اور صوفی ابوحامد محمد بن محمد شافعی غزالی اپنی آخری عمر میں کلام کے مسائل سے متعلق حیران اور شک میں مبتلا ہو گئے تھے اور عقائد کے باب میں صحیح احادیث کا انکار کرتے کرتے اس حال کو پہنچ گئے تھے کہ موت کے وقت صحیح بخاری ان کے سینے پررکھی ہوئی تھی۔ ۳۔ فلسفہ ، کلام اور تفسیر کے میدان میں سب سے زیادہ شہرت حاصل کرنے والے رازی کا پورا نام فخرالدین محمد بن عمربن حسین ہے ، انہوں نے اپنی تفسیر اور ’’اساس التقدیس‘‘ میں اہل سنت و جماعت کا خوب خوب مذاق اڑایا ہے اور عقائد کے باب میں اخبار آحاد کے ناقابل استدلال ہونے پر بڑے دلائل دیئے ہیں امام ذہبی نے سیراعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ ان کی تصنیفات میں سنت سے انحرافات کی بھرمار ہے ۔ [2] حافظ ابن حجر نے لسان المیزان (ص ۴۲۸ ج:۴) میں لکھا ہے کہ ’’ایک بوڑھی عرب عورت نے ایک بہت بڑا
Flag Counter