Maktaba Wahhabi

335 - 531
واضح ہو کہ عصر صحابہ میں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پورے سو سال قرآن کی طرح حدیث بھی محفوظ رہی اور ہر ملاوٹ اور آمیزش سے پاک بھی، لیکن قرآن کی طرح اس کا ذکر اور چرچا اس وجہ سے نہیں ملتا کہ وہ قرآن کی طرح وحی متلو نہیں ہے کہ بطور عبادت نمازوں یا نمازوں سے باہر اس کی تلاوت کی جاتی، جہاں تک اس کے دین اور دین کا ماخذ ہونے کا معاملہ ہے تو اس میں اور قرآن میں نہ سرمو کوئی فرق ہے اور نہ صحابہ کرام دونوں میں ایسا کوئی فرق کرتے تھے اور نہ کر سکتے تھے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی طرح غیر مشروط اطاعت فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی غیر مشروط اطاعت فرض ہے اور یہ چیز شہادتین میں شامل ہونے کی وجہ سے ایمانیات میں داخل ہے اور رسول کی اطاعت ہو نہیں سکتی جب تک وہ چیز مکمل طور پر اور ہر ملاوٹ سے پاک شکل میں محفوظ نہ ہو جس میں اس کی اطاعت مطلوب ہے۔ برنی کی ہرزہ سرائی: ڈاکٹر افتخار برنی اپنے قد سے اونچی باتیں کرنے کے خوگر ہیں ، ذرا ان کی ہرزہ سرائی ملاحظہ فرمائیے: احادیث کی کتابت یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں شروع ہو چکی تھی، مگر ان کی اصل تدوین کا کام عباسی خلفاء کے زمانے میں انجام پایا، عابدی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ قرآن و حدیث ۳ صدیوں تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے، مگر قرآن کی منتقلی کا انداز حدیث سے مختلف رہا ہے، قرآن کی منتقلی کا عمل حفاظ کی صورت میں آج بھی جاری ہے، مگر اس عمل میں ہر دور میں قولی تواتر کا عظیم عنصر موجود رہا ہے، اس قولی تواتر کے ساتھ اس بات کی گنجائش ہمیشہ موجود رہی ہے کہ کسی بھی آیت کے بارے میں ابہام یا تردد کی صورت میں اصل متن یا TEXT سے اس کا موازنہ کیا جا سکے اس لیے قرآن کی حفاظت اور INTEGRITY کے حوالے سے روز اول سے حق الیقین کا معاملہ رہا ہے، قرآن کی ایک ایک آیت اور سورہ کے بارے میں اللہ کا چیلنج ہر زمانے کے لیے موجود رہا ہے کہ ایسی کوئی مثال پیش کر کے دکھائی جائے۔[1] برنی نے مذکورہ بالا عبارت میں جو ہرزہ سرائیاں کی ہیں یا جو راگ الاپا ہے وہ ہرزہ سرائیاں ان سے پہلے محمود ابوریہ اپنی رسوائے زمانہ کتاب ’’اضوا علی السنۃ المحمدیہ‘‘ میں کر چکا ہے اور اس نے بھی یہ راگ الاپا ہے کہ قرآن پاک کی طرح حدیث ضبط تحریر میں نہیں لائی گئی جس کے نتیجے میں قرآن تو ہر کمی بیشی اور محاکات سے محفوظ رہا، جبکہ حدیث کے نام سے ہزاروں جھوٹی اور من گھڑت روایتیں لوگوں میں پھیل گئیں ڈاکٹر برنی کی طرح ابوریہ نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ صحابہ کرام حدیث کو وہ اہمیت نہیں دیتے تھے جو اہمیت وہ قرآن کو دیتے تھے اس نے اس کی مثال میں جنگ یمامہ میں قرآن پاک کے ’’قراء‘‘ کے بڑی تعداد میں شہید ہو جانے کے بعد مصحف صدیقی تیار کرنے کا واقعہ پیش کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ صحابہ کرام خصوصاً عمر، ابو بکر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کو ’’قراء‘‘ کی شہادت سے قرآن کے ضائع ہو
Flag Counter