Maktaba Wahhabi

146 - 531
یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے ساتھ حدیث بھی دی ہے، اس طرح جو حکم یا عقیدہ صرف حدیث میں آیا ہو قرآن میں نہ آیا ہو اس آیت کی رو سے قرآن ہی کا حکم یا عقیدہ ہے اور اس کا انکار قرآن کا انکار ہے۔ دوسرے آپ نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں تلاوتِ کتاب کے ساتھ کتاب و حکمت کی تعلیم بھی داخل تھی اور تعلیم تلاوت سے مختلف چیز ہے اور کتاب کے ساتھ حکمت کو معطوف کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ حکمت کتاب کے علاوہ ہے اور جو لوگ اس سے حدیث مراد لیتے ہیں ان کی بات میں بڑا وزن ہے آپ کے اپنے الفاظ یہ ہیں : ’’حکمت کا ذکر یہاں کتاب کے ساتھ اس بات پر دلیل ہے کہ تعلیمِ حکمت تعلیم کتاب سے ایک زائد شے ہے، اگرچہ یہ حکمت سر تا سر قرآن حکیم ہی سے ماخوذ و مستنبط ہو، اس وجہ سے ہمارے نزدیک جو لوگ حکمت سے حدیث مراد لیتے ہیں ان کی بات میں بڑا وزن ہے۔‘‘[1] بات بالکل صاف ہوگئی، یعنی جب یہ ثابت ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے ہمیں قرآن و حدیث دونوں دیا ہے اور آپ کے فرائض رسالت میں دونوں کی تعلیم داخل تھی، تو پھر حکم الٰہی کے بموجب دونوں کے حکم میں تفریق حکم الٰہی کی خلاف ورزی ہے: دوسری حدیث: … توحید پر مرنے والا جنت میں جائے گا: حدیث کا متن اور ترجمہ: ((حدثنا مسدد، قال: حدثنا معتمر، قال: سمعت أبی ۔ سلیمان بن طرخان التیمی البصری۔ قال: سمعت أنسا قال: ذکرلی أن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم قال لمعاذ: من لقی اللّٰہ لا یشرک بہ شیئا دخل الجنۃ‘‘ قال: ألا ابشر الناس؟ قال: لا، إنی أخاف أن یتکلوا۔))[2] ’’ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا: ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا: میں نے اپنے والد -یعنی سلیمان بن طرخان تیمی بصری کو فرماتے ہوئے سنا ہے، انھوں نے کہا: میں نے انس سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا: مجھ سے ذکر کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ سے فرمایا: جو اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرتا رہا ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘ معاذ نے عرض کیا: کیا میں لوگوں کو خوشخبری نہ دے دوں ؟ فرمایا: نہیں ، مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اس پر تکیہ کرلیں گے۔‘‘
Flag Counter