Maktaba Wahhabi

120 - 531
اصلاحی صاحب کے دعوی کے برعکس ان آیتوں کے کسی ایک لفظ سے غضبناکی کا اظہار نہیں ہوتا اور لب و لہجہ ہر طرح کی تیزی و تندی سے پاک ہے۔ اس طرح یہ آیتیں اپنے نرم و شیریں اور دل کو چھولینے والے انداز خطاب کی وجہ سے پہلی وحی الٰہی ہونے کی مستحق بھی ہیں اور واقعتا ہیں بھی۔ دراصل اس سورہ میں غضبناکی اور گھن گرج کا آغاز چھٹی آیت سے ہوتا ہے جس کا پہلا ہی لفظ ’’کلا‘‘ دل پر لرزہ طاری کردینے والا ہے، اور اس آیت کے الفاظ، ان کی ترکیب اور انداز ہر چیز ہلادینے والی ہے: ﴿کَلَّا ٓاِِنَّ الْاِِنسَانَ لَیَطْغٰی، اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی، ﴾ (العلق:۶تا۷) ’’ہرگز نہیں ، درحقیقت انسان جب اپنے آپ کو مستغنی دیکھتا ہے تو سرکشی کرنے لگتا ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کے فضل و توفیق سے دولت مند ہوجاتا ہے، یا صاحب اقتدار ، یا طاقت ور ہوجاتا ہے تو سرکشی پر اتر آتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ اس کی تخلیق خون کے ایک جمے ہوئے لوتھڑے سے ہوئی ہے۔ یہ کلام اللہ کا اعجاز ہے کہ ابتدائی پانچ آیتوں کے بعد جب انسان کی سرکشی کا بیان شروع ہوا تو سورہ کا نظم ٹوٹنے نہ پایا، جبکہ ابتدائی پانچ آیتوں کا لب و لہجہ بے حد نرم اور دل نشین ہے اور چھٹی آیت سے اختتام سورہ تک جس مجرم اور سرکش انسان کی تصویر پیش کی گئی ہے وہ ہر طرح کی خیر و بھلائی سے عاری، بلکہ خیر و بھلائی اور اللہ کی بندگی سے روکنے والے انسان کی تصویر ہے، مگر انداز بیان اور لب و لہجہ میں اس نمایاں فرق کے باوجود تمام آیتیں نہایت خوبصورتی کے ساتھ ایک لڑی میں پروئی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اور جذب و کشش کا یہ حال ہے کہ یہ سورہ پڑھنے والا اس کی قوتِ تاثیر کی گرفت میں آکر اپنے وجود سے غافل ہوجاتا ہے۔ ابھی میں نے جو کچھ عرض کیا ہے اس کی روشنی میں اصلاحی صاحب کے دعویٰ پر غور کرکے فیصلہ کیجیے۔ (۲) غار حرا میں جبریل علیہ السلام کی آمد کا مقصد: اصلاحی صاحب کا دعویٰ ہے کہ ’’جبریل علیہ السلام کی یہ آمد وحی پہنچانے کے لیے تھی ہی نہیں ۔ اس کا مقصد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ کو روحانی طاقت کے ساتھ اتصال کے لیے تیار کرنا اور فرشتہ وحی کے ساتھ تعارف کرانا تھا۔ فرشتے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سنانے کو کہا تو آپ نے جواب دیا کہ ’’ما أنا بقاریٔ‘‘ یعنی میں کوئی ذی علم آدمی نہیں کہ لوگوں کو پڑھاؤں سناؤں …‘‘ مولانا کا یہ دعویٰ اُن کے اس دعویٰ پر مبنی ہے جو انھوں نے سورۂ علق کے انداز خطاب کے بارے میں کیا ہے اور جس کو رد کرتے ہوئے میں عرض کرچکا ہوں کہ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیتوں کا اسلوب بیان بعد کی آیتوں سے بالکل مختلف ہے اور آیتوں کو نقل کرکے اور ان کا ترجمہ کرکے یہ دکھا چکا ہوں کہ ان کے مزاج میں نہ کوئی تیزی و تندی ہے اور نہ ان کے انداز خطاب میں کوئی غضبناکی جس کو ایک غیر عربی داں شخص بھی محض ترجمہ پڑھ کر محسوس کرسکتا ہے اور بعد کی
Flag Counter