Maktaba Wahhabi

460 - 531
و امین ہو اس کی خبر میں کذب کا احتمال نہیں ہوتا اور وہ سر تا پا صدق ہی ہوتی ہے اور چونکہ حدیث یا سنت کی بنیاد براہِ راست اور بالواسطہ سمع و بصر پر ہوتی ہے جو یقینی ذرائع علم ہیں اس طرح ’’اصلاحی ‘‘ کا یہ دعویٰ بھی ریت کا تودہ ثابت ہوا کہ:’’ اس بنا پر احادیث کو ظنی بھی کہتے ہیں ‘‘[1] دراصل ظن یقین اور علم کی ضد ہے ، کیونکہ یہ وہم ، خیال اور گمان سے عبارت ہے ، ایسی صورت میں حدیث جو سمع و بصر پر مبنی ہے ظنی کس طرح ہو سکتی ہے ، ویسے منکرین حدیث اور ان کے ہم مشربوں کو حدیث سے ظن کا فائدہ بھی نہیں ہوتا ، کیونکہ حدیث میں کیڑے نکالنا اور اس کو مشکوک بنانا ان کا مقصد وجود بن چکا ہے ۔ اصلاحی صاحب کا یہ فرمانا: حدیث میں صحیح ، حسن ، ضعیف، موضوع اور مقلوب سب کچھ ہو سکنے کا امکان پایا جاتا ہے ان کی بدحواسی پر دلالت کرتا ہے ، اگر انہوں نے یہ دعویٰ کرنے سے قبل علوم حدیث کی کوئی ابتدائی کتاب بھی دیکھ لی ہوتی تو ان کو معلوم رہتا کہ ضعیف موضوع اور مقلوب کا شمار مردود احادیث میں ہوتا ہے اور ان کے ساتھ حدیث کا ذکر ویسے ہی ہے جیسے نقلی دواؤں کے ساتھ دواؤں اور جعلی کرنسی نوٹوں کے ساتھ نوٹوں کا لفظ بھی بولا جاتا ہے ۔ تیسرا مغالطہ ، حدیث اور سنت میں فرق: حدیث اور سنت میں فرق اصلاحی صاحب کا تیسرا مغالطہ ہے جس کو اصلاحی مکتبہ فکر سے وابستہ لوگ ان کا انکشاف بتاتے ہیں ۔ پہلے میں اصلاحی صاحب کے دعووں کو نقل کر دینا چاہتا ہوں بعد میں ترتیب وار ہر دعوے کا جائزہ لوں گا اس طرح جہاں ان کا مبلغ علم واضح ہو جائے گا وہیں حدیث اور سنت میں فرق کے پیچھے کار فرما ان کا نظریہ حدیث بھی معلوم ہو جائے گا۔ فرماتے ہیں : ’’حدیث اور سنت کو لوگ عام طور پر بالکل ہم معنی سمجھتے ہیں …حدیث اور سنت میں آسمان و زمین کا فرق ہے اور دین میں دونوں کا مرتبہ و مقام الگ الگ ہے ان کو ہم معنی سمجھنے سے بڑی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں ۔‘‘[2] سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ طریقہ ہے جو آپ نے بحیثیت معلم شریعت اور بحیثیت کامل نمونہ کے ، احکام و مناسک کے ادا کرنے اور زندگی کو اللہ تعالیٰ کی پسند کے سانچہ میں ڈھالنے کے لیے عملا اور قولا لوگوں کو بتایا اور سکھایا۔ [3] سنت کی بنیاد احادیث پر نہیں جن میں صدق و کذب کا احتمال ہوتا ہے ۔ جس طرح قرآن قولی تواتر سے ثابت ہے اسی طرح سنت امت کے عملی تواتر سے ثابت ہے مثلا ہم نے نماز اور حج وغیرہ کی تمام تفصیلات اس وجہ سے نہیں اختیار کیں کہ اس کو چند راویوں نے بیان کیا، بلکہ یہ چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمائیں آپ سے صحابہ کرام نے ان سے تابعین نے پھر تبع تابعین نے سیکھا اسی طرح بعد والے سیکھتے چلے آئے ، اگر روایات کے ریکارڈ میں ان کی تائید موجود ہے تو یہ اس کی مزید شہادت ہے اگر وہ عملی تواتر کے مطابق ہے تو فبہا اور اگر
Flag Counter