Maktaba Wahhabi

474 - 531
تدبر حدیث کے اصول یا مغالطے؟ کسی بھی علم یا فن کے اصول اور قواعد بیان کرنے کا مجاز وہ ہوتا ہے جو اس علم یا فن میں ایسے مقام کو پہنچ چکا ہو جس کو اس علم یا فن سے واقفیت رکھنے والے تسلیم کرنے لگیں اس کے باوجود اس کے بیان کردہ اصولوں یا قواعد و ضوابط میں کلام کی گنجائش باقی رہتی ہے ۔ مولانا اصلاحی پوری عمر قرآن میں غور و تدبر میں کھپا دینے کے بعد بھی فہم قرآن تو دور کی بات ہے ترجمہ قرآن میں بھی کوئی قابل ذکر مقام نہ پیدا کر سکے، حدیث میں تو وہ مبتدی تھے، علم حدیث میں ’’الکفایہ‘‘ اور کتب حدیث میں ’’مؤطا‘‘ تک ان کا علم محدود تھا۔ بایں ہمہ وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ فہم حدیث اور حدیث کی تصحیح و تضعیف کے لیے اصول وضع کر سکتے ہیں اور انہوں نے کیا بھی ۔ جو لوگ ان کے مکتبہ فکر سے وابستہ تھے ان میں بیشتر ایسے نوجوان تھے جو قرآن و حدیث کے عام قاری تھے اور اپنے امام کی زبان سے جو باتیں سنتے تھے ان کو ’’وحی الٰہی‘‘ سے کم درجہ نہیں دیتے تھے ، اور اگر مولانا حدیث یا سنت سے متعلق کچھ فرماتے ، چاہے اس کی تشریعی حیثیت کے اقرار سے متعلق یا انکار سے متعلق تو ان کے شاگردان باوفا کی باچھیں کھل جاتیں اور وہ اس کو ’’خدمت حدیث‘‘ کا نام دیتے اور اب تک دے رہے ہیں ۔ اصلاحی صاحب نے اپنی کتاب ’’مبادی تدبرحدیث‘‘ میں پانچ اصول تدبر حدیث کے اور پانچ ہی اصول حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے بیان فرمائے ہیں اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان اصولوں کے مطالعہ سے جہاں حدیث کو سمجھنا آسان ہو جائے گا وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب روایات کے صحیح و سقیم میں امتیاز بھی آسان ہو جائے گا اسی وجہ سے انہوں نے ان اصولوں کو کسوٹیوں سے تعبیر کیا ہے ۔ ۱۔ پہلا اصول ، قرآن مجید ہی امتیاز کی کسوٹی ہے : تحریر فرماتے ہیں : پہلا اصول یہ ہے کہ قرآن مجید جس طرح ہماری زندگی کے ہر گوشے میں حق و باطل میں امتیاز کے لیے کسوٹی ہے اسی طرح حدیث کے معاملے میں بھی اصلا وہی امتیاز کی کسوٹی ہے ۔ دونوں میں رشتہ اصل یا فرع یا متن اور شرح کا ہے ، قرآن مجید میں دین و شریعت کے اصول بیان ہوئے ہیں جن کی حیثیت اساسات کی ہے اور حدیث ان کی شرح کرتی ہے۔ [1] اس کسوٹی یا اصول پر لب کشائی کرنے سے قبل یہ عرض کر دوں کہ اسی باب کے دوسرے فقرے میں اصلاحی صاحب نے قرآن پاک کی چند آیات نقل کی ہیں جن میں قرآن ’’الکتاب‘‘ کی صفات میزان اور مہیمن وغیر ہ بیان ہوئی ہیں ، انہوں نے ان الفاظ سے یہ استدلال کیا ہے کہ ’’قرآن کے میزان عدل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ’’دین و شریعت کی ہر
Flag Counter