Maktaba Wahhabi

492 - 531
میں ہو جاتے ہیں ۔ دراصل حدیث میں اللہ کی مشیئت بیان کی گئی ہے اور جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس میں حرف ’’لو ‘‘ کا استعمال یہ بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک و بد، صالح و فاسد اور فرماں بردار اور نافرمان دونوں کو عذاب نہیں دے گا ۔ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق ہے : ﴿ِ وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ﴾ (البقرہ :۲۵۳) ’’اگر اللہ چاہتا تو جو لوگ ان کے بعد تھے وہ آپس میں ، اپنے پاس واضح نشانیاں آجانے کے بعد نہ لڑتے ۔‘‘ لیکن اللہ کی مشیت یہ نہ ہوئی اس لیے وہ لڑتے رہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ولو شاء اللّٰہ ما اقتتلوا کا سابقہ فقرہ ولو شاء اللّٰہ کی تاکید کرتے ہوئے اعادہ فرمایا ہے کہ اور آیت کا اختتام اپنے اس ارشاد پر کیا ہے : ولکن اللّٰہ یفعل ما یرید ’’لیکن اللہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے ۔‘‘مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا کہ وہ نہ لڑیں تو وہ نہ لڑتے ، لیکن اس نے نہیں چاہا اس لیے لڑے اور اللہ وہی کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے ، یہاں ارادہ سے مراد ’’کونی ‘‘ ارادہ ہے جو نافذ ہو کر رہتا ہے ۔ ان تفصیلات سے یہ معلوم ہوا کہ زیربحث حدیث اور آیت میں اللہ کی مشیت بیان ہوئی ہے اور حرف ’’لو‘‘ کے استعمال نے یہ واضح کر دیا کہ اس نے اپنی مشیت نافذ نہیں کی ، اگر نافذ کرتا تو ظالم نہ ہوتا۔ رہی سورت قلم کی آیت تو اس نے اس میں اپنا قانونِ جزا و سزا بیان کیا ہے اس طرح اس آیت اور مذکورہ حدیث میں کوئی تعارض یا منافات نہیں ہے، کیونکہ دونوں کا محل جدا جدا ہے ۔ اصلاحی صاحب نے حدیث کو سورہ قلم کی آیت کے خلاف سمجھ لیا اور اس پر حدیث اور عقل میں منافات کا قصر تعمیر کر لیا ، پھر ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے من گھڑت قاعدے کا اعلان کر دیا کہ ’’ایسی تمام روایات رد کر دی جائیں گی جو عقل کلی کے منافی ہوں گی ۔‘‘ اس بحث کے آخر میں یہ اضافہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ظلم کی صفت سے پاک ہے، اس لیے اگر وہ سارے جہاں والوں کو عذاب دے تو اس میں وہ ظالم ہر گز نہیں ہو گا، بلکہ وہ مستحق عذاب ہوں گے تب ہی وہ ان کو عذاب دے گا۔ عقل کی درماندگی: اصلاحی صاحب کے اس بلند بانگ دعوے کی بنیاد دو چیزوں پر ہے ، ایک یہ کہ حدیث اور عقل میں منافات ہے دوم یہ کہ دونوں میں منافات یا تعارض کی صورت میں حدیث رد کر دی جائے ۔
Flag Counter