Maktaba Wahhabi

454 - 531
کتابوں کا ذکر اور ان سے استدلال بھی ہے ۔ علوم حدیث کے موضوع پر دسیوں کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے ایک کتاب حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی ’’الکفایہ فی معرفۃ اصول علم الروایہ‘‘ بھی ہے یہ کتاب برصغیر کے علمائے حدیث میں زیادہ متداول نہیں رہی ہے نیز اس میں آئمہ حدیث کے اقوال کے ساتھ بغدادی نے قرآن و حدیث کے احکام خبر واحد کی تشریعی حیثیت ، عقل کے خلاف خبرواحد کے قبول و رد کے مسائل و غیر ہ کے بارے میں خود اپنے خیالات بھی پیش کئے ۔ خطیب بغدادی ۳۹۲ھ مطابق ۹۸۷ء میں پیدا ہوئے ان کو حفاظ حدیث کے سلسلے کی آخری کڑی قرار دیا جاتا ہے انہوں نے اپنے وقت کے آئمہ حدیث کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا اور صرف حدیث ہی نہیں بلکہ دوسرے دینی علوم میں بھی مہارت پیدا کی انہوں نے حدیث اور علوم حدیث میں متعدد کتابیں لکھیں مثال کے طور پر معجم الرواۃ عن شعبہالمؤتلف والمختلف، المسلسلات ، طرق قبض العلم، الاجازہ للمجہول اور الکفایۃ وغیرہ ، ان کی مشہور کتاب ’’تاریخ بغداد‘‘ ہے جو حدیثوں کا بہت بڑا مجموعہ ہونے کے ساتھ راویان حدیث کا دائرۃ المعارف بھی ہے ۔ حدیث کے بارے میں اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصلاحی صاحب نے الکفایہ انتخاب اس لیے کیا تھا کہ اس میں ان کو اپنے مطلب کی بہت سی باتیں مل گئی تھیں اس لیے نہیں کیا تھا کہ ’’علم روایت‘‘ میں یہ منفرد کتاب ہے جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے اس کتاب سے انہوں نے اپنے جن دعووں کی صحت پر استدلال کیا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ ان میں سے ہر دعوے کا جواب مستقل عنوان کے تحت دیکر یہ واضح کروں گا کہ انہوں نے ایسا خدمت حدیث کے جذبے سے نہیں کیا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کے شاگردوں اور حامیوں میں جو لوگ ’’الکفایہ‘‘ کی ایک سطری عبارت صحت کے ساتھ پڑھ بھی نہیں سکتے انہوں نے بھی اس کے حوالے دئیے ہیں جیسے ڈاکٹر افتخار برنی اور غامدی وغیرہ۔ اصلاحی صاحب تحریر فرماتے ہیں : میں نے حوالہ کے لیے اس کتاب کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ یہ امہات فن میں شامل ہے جہاں تک مطالعہ کا تعلق ہے میں نے دوسری کتابیں بھی پڑھ لی ہیں ، میرے نزدیک اصول حدیث میں سب سے اہم کتاب یہی ہے جہاں تک مجھے علم ہے دوسرے اصحابِ فن بھی اس کے متعلق یہی رائے رکھتے ہیں ۔[1] حقیقی وجہ: اصلاحی صاحب کا یہ دعویٰ امر واقعہ کے خلاف ہے کہ انہوں نے الکفایہ کا مطالعہ اس لیے کیا تھا کہ یہ امہات فن میں شامل ہے ، بلکہ اس لیے کیا تھا کہ حدیث کے بارے میں ان کے گمراہ کن افکار و خیالات کی اس کتاب کے بعض فقروں سے تائید ہوتی ہے جو بذات خود محل بحث و محل نظر ہیں جیسا کہ آگے ان پر میرے بے لاگ تبصرے سے عیاں ہو گا ،
Flag Counter