Maktaba Wahhabi

503 - 531
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ سچے ہیں ، لوگوں نے کہا: کیا تم اس بات میں ان کی تصدیق کرتے ہو کہ وہ ایک ہی رات میں شام گئے ، پھر مکہ واپس لوٹ آئے؟ فرمایا : ہاں ، میں تواس سے بھی بعید تر بات میں ان کی تصدیق کرتا ہوں ، میں تو ان کی تصدیق آسمان کی خبر سے متعلق کرتا ہوں ، راوی کا بیان ہے : اس کی وجہ سے ان کا لقب صدیق ہو گیا، یعنی نہایت سچا اور ہمیشہ تصدیق کرنے والا۔‘‘ بیہقی کی اس روایت کی اصل صحیحین میں موجود ہے ۔[1] جو بہت مختصر ہے اور اس میں مشرکین مکہ کی تکذیب کا تو ذکر ہے ، لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تصدیق کا ذکر نہیں ہے ، البتہ امام حاکم نے مستدرک میں اپنی سند سے جو حدیث نقل کی ہے اور جس کو انہوں نے صحیح الاسناد اور صحیحین کی شرطوں کے مطابق بتایا ہے اور امام ذہبی نے تلخیص میں ان کے اس دعوی کی تائید کی ہے ، اس میں یہ تصریح ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صدیق کا لقب دئیے جانے کا سبب یہ ہے کہ آپ نے لوگوں سے اسراء کے واقعہ کا ذکر سننے کے بعد فرمایا تھا : (لئن کان قال ذلک لقد صدق ) اگر آپ نے یہ فرمایا ہے تو سچ فرمایا ہے ۔‘‘ [2] اسراء اور معراج کا واقعہ عقل کے خلاف نہیں : اللہ تعالیٰ نے ایک ہی رات میں اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے جانے اور پھر وہاں سے آسمانوں کا سفر کرانے اور اپنی بعض عظیم نشانیوں کا مشاہدہ کرانے کا جو ذکر کیا ہے ان میں سے کوئی بات بھی عقل کے خلاف نہیں ہے ، البتہ عقل کے ادراک و احاطہ سے باہر ہے ، مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’اللہ نے ان نشانیوں کی کوئی تفصیل نہیں فرمائی ہے کہ نہ الفاظ ان کے متحمل ہو سکتے تھے اور نہ وہ ہماری عقل کی گرفت میں آسکتی تھیں ۔ [3] مشرکین مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’صادق و امین‘‘ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارکہ سے یہ واقعہ سن کر انہوں نے اسے عقل سلیم کی میزان میں تولنے کے بجائے اسے مکہ سے بیت المقدس کے سفر میں درکار مدت کے ترازو میں تولا تو ایک ہی رات میں دونوں شہروں کے درمیان جانے اور واپس آنے کو بعید ازامکان تصور کر لیا ، کیونکہ ان کے اپنے تجربے کے مطابق اس سفر میں دو ماہ مہینے یا ۴۰ دن صرف ہوتے تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی کا جو وصف بیان فرمایا تھا اس کے صحیح اور درست ہونے کا انہوں نے اعتراف کر لیا تھا ، اگر وہ ہٹ دھرمی سے کام نہ لیتے تو اس اعتراف میں ایسی روشنی موجود تھی جو ان کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کے بجائے تصدیق کا اشارہ دے رہی تھی ، کیونکہ کسی چیز کا صحیح وصف وہی بیان کر سکتا ہے جس نے اسے دیکھا ہو یا اس سے وہ وصف کسی ایسے شخص نے بیان کیا ہو جو دقت نظر کا بھی مالک ہو اور سچا بھی ہو ، مشرکین کو یہ بھی معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کا سفر کبھی نہیں کیا
Flag Counter