Maktaba Wahhabi

401 - 531
الٰہی پڑھا: اور لوگوں نے اللہ کی ویسی قدر نہیں کی جیسی قدر اس کا حق ہے، جبکہ ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے وہ پاک و بالاتر ہے ان سے جن کو لوگ اس کا شریک بناتے ہیں ۔‘‘ اہل تاویل کی کج بحثیاں : یہ حدیث اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے اور اس کا لفظ لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی عالم کی مکمل تصدیق و تائید فرمائی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں اس کے مبنی برحق اور مطابق قرآن اعتراف و اقرار پر خندہ زن ہو کر اپنی مسرت کا اظہار فرمایا اور پھر ارشاد الٰہی کی تلاوت کر کے اس پر مہر توثیق لگا دی۔ بایں ہمہ تاویل و تحریف کے خوگروں اور فلسفہ و کلام کو اپنا مطمح نظر و فکر قرار دینے والوں نے اس حدیث کے بعض الفاظ کا انکار کر کے اور بعض کو ان کے ظاہری مفہوم سے پھیر کر اس کو اپنے غلط اور فاسد عقیدے کا مظہر بنانے کی سعی مذموم کر ڈالی اور عجیب و غریب تضادات کا شکار ہو گئے؛ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں متکلمین اشاعرہ کے جن شارحین حدیث کے اقوال نقل کیے ہیں پوری تفصیلات کے ساتھ ان کا ذکر موجب طوالت ہو گا، تاہم ان کو نظر انداز کر دینا بھی مناسب نہیں ہے، کیونکہ اس طرح ایک اہم بحث تشنہ رہ جائے گی۔ ذیل میں چند مشاہیر شارحین صحیح بخاری کے اقوال نقل کر رہا ہوں ل جن پر بعد میں تبصرہ کروں گا۔ ابن بطال کی ہرزہ سرائی: ابو الحسن علی بن خلف بن بطّال متوفی ۴۴۴ھ فرماتے ہیں : ’’حدیث میں ’’اصبع‘‘… انگلی… کو عضو پر محمول نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس سے مراد اللہ کی ذاتی صفات میں سے ایک ایسی صفت ہے جس کی نہ تو کوئی کیفیت بیان کی جانی چاہیے اورنہ اس کا تعین کرنا چاہیے۔ حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ یہودی نے مخلوقات کا ذکر کرنے کے بعد یہ خبر دی کہ اللہ ان سب پر قادر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے اور اس بات پر تعجب کرتے ہوئے کہ وہ اس کو اللہ کی قدرت کی بابت بڑا سمجھ رہا ہے، جبکہ اللہ کو مخلوقات پر جو قدرت حاصل ہے اس کے مقابلے میں یہ کوئی بہت بڑی چیز نہیں ہے، ہنس پڑے، اس لیے آپ نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿وما قدروا اللّٰہ حق قدرہ﴾ کی تلاوت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی قدر یہ نہیں ہے کہ اس کو اس کی مخلوقات پر اس حد کے بقدر مانا جائے جو تصور کی گرفت میں آ سکتی ہے یا تصور جس کا احاطہ کر سکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی چیز پر اعتماد کیے بغیر اپنی مخلوقات کو پکڑے ہوئے اور تھامے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا﴾ (فاطر:۴۱) ’’درحقیقت اللہ آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے۔‘‘
Flag Counter