Maktaba Wahhabi

387 - 531
مطالعہ رکھنا بالکل قدرتی تھا اور مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد قرآن کا مطالعہ اور اس کی تلاوت تقاضائے ایمان تھی اس تناظر میں ان کا یہ فرمانا: میں نے قرآن اور تورات پڑھ رکھی ہے۔‘‘ روایت کے باطل ہونے کے باوجود مقبول ہے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو یہ حکم دینا کہ: ((إقرأ بھذا لیلۃ وبھذا لیلۃ)) ’’ایک رات یہ اور ایک رات یہ پڑھا کرو۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس عبارت کے الفاظ اور اسلوب بیان سے جو مفہوم نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ دونوں کتابوں کی یہ تلاوت نماز تہجد سے متعلق تھی، اور یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ اگر تورات تحریف سے پاک بھی ہوتی تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاوت کا اور وہ بھی نماز میں حکم نہ دیتے، اس لیے کہ نزول قرآن کے بعد اس کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہو چکے ہیں ، ایسی صورت میں جبکہ خود قرآن کی شہادت سے اس وقت تک تورات محرف ہو چکی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک ایسے جان نثار اور مخلص صحابی کو جو یہودیت کی تاریکی سے نکل کر اسلام کی روشنی میں داخل ہو چکا تھا ایک محرف کتاب کی تلاوت کا حکم نماز جیسی عبادت میں کس طرح دے سکتے تھے؟ دراصل تورات کی تلاوت سے متعلق مولانا گیلانی کی نقل کردہ دونوں روایتوں کو گھڑ کر ان کو پھیلانے کے پیچھے جو مقصد کارفرما تھا وہ یہ کہ ان دونوں جلیل القدر صحابیوں : عبد اللہ بن عمرو بن عاص اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ تاثر دیا جائے کہ اللہ کے آخری نبی اور رسول محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قرآن کے کتاب اللہ ہونے پر ان کا ایمان مشکوک تھا یا کم سے کم آمیزش سے پاک نہیں تھا اور ان کے دلوں میں یہودیت اوراس کی محرف کتاب تورات سے بھی تعلق باقی تھا اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائی اور جان نثار عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا قبل از اسلام نہ صرف یہ کہ یہودیت سے تعلق تھا، بلکہ وہ یہودیوں کے سب سے بڑے عالم اور مذہبی پیشوا بھی تھے اس لیے قرآن کے ساتھ تورات سے بھی ان کا تعلق دکھا کر یہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے کہ یہودیت سے نکل کر اسلام میں داخل ہو جانے کے باوجود بھی اس کے لیے اور اس کی محرف کتاب تورات کے لیے ان کے دل میں احترام و قدر دانی کے جذبات موجزن تھے اس طرح منکرین حدیث کے اس الزام کی دانستہ یا نادانستہ تائید و حمایت کی گئی ہے کہ یہ دونوں صحابی اور ان کے ساتھ کعب احبار مسلمانوں میں حدیث کے نام سے اسرائیلی روایات پھیلا رہے تھے۔ ابوریہ اور گیلانی کے نظریات میں ہم آہنگی: مشہور دشمن اسلام اور منکر حدیث محمود ابوریہ نے اپنی رسوائے زمانہ کتاب ((أضواء علی السنۃ المحمدیہ)) میں ابو ہریرہ، عبد اللہ بن عمرو، عبد اللہ بن سلام اور کعب احبار رضی اللہ عنہ پر وضع حدیث اور حدیث کے نام سے اسرائیلی روایات پھیلانے کا الزام لگایا ہے، اور مولانا مناظر احسن گیلانی نے عبد اللہ بن عمرو اور عبد اللہ بن سلام کے تورات سے تعلق کا دعوی کر کے ابوریہ کے دعووں کی حمایت کر دی ہے، بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ تورات کی تلاوت سے ان کے اہتمام کا دعویٰ کر کے وہ ابوریہ سے بھی بازی لے گئے ہیں اور ان کی خدمت حدیث پر بھی کوئی دھبہ نہیں آیا، تو کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔
Flag Counter