Maktaba Wahhabi

210 - 531
تھا ہم نے تو اسے سچ پا لیا، کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا تم نے بھی اسے سچ پا لیا؟ ابو طلحہ کہتے ہیں : عمر نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ ایسے جسموں سے کیا فرما رہے ہیں جو روحوں سے خالی ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اس کو تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو‘‘ قتادہ کہتے ہیں : اللہ نے ان کو زندگی بخش دی تھی تاکہ ان کی سرزنش، ان کی تذلیل، ان کی پاداش عمل اور ان کی حسرت و ندامت کو فزوں تر کرنے کے لیے آپ کی باتیں ان کو سنا دے۔‘‘[1] (۲) دوسری حدیث: ((حدثنی عثمان، حدثنا عبدۃ، عن ھشام، عن ابیہ، عن ابن عمر رضی اللّٰه عنہ قال: وقف النبی صلي اللّٰه عليه وسلم علی قَلیب بدر، فقال: ھل وجدتم ما وعد ربکم حقا، ثم قال: اِنھم الان یسمعون ما أقول۔ فذکر لعائشہ، فقالت: انما قال النبی صلي اللّٰه عليه وسلم : انھم الان لیعلمون أن الذی کنت اقول لھم ھو الحق۔ ثم قرأت: ’’انکَ لا تُسمع الموتی‘‘ (النمل:۸۰) حتی قرأت الایۃ)) ’’مجھ سے عثمان نے بیان کیا، کہا: ہم سے عبدہ۔ بن سلیمان۔ نے، ہشام سے، انہوں نے اپنے باپ۔ عمرو بن زبیر۔ سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ ابن عمر نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے اور فرمایا : کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا تم نے اسے سچ پایا؟ پھر آپ نے فرمایا: میں جو کہہ رہا ہوں ، یہ اسے اس لمحہ سن رہے ہیں ‘‘ یہ واقعہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: اس وقت ان کو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ میں ان سے جو کہہ رہا تھا وہ سچ ہے، پھر انہوں نے سورۂ نمل کی آیت نمبر ۸۰ کی تلاوت کی: درحقیقت تم نہ مردوں کو سنا سکتے ہو اور نہ ان بہروں کو اپنی دعوت گوش گزار کر سکتے ہو جو پیٹھ پھیر کر بھاگے جا رہے ہوں ۔ ‘‘[2] حضرت عائشہ کا انکار حدیث اور دلیل انکار: ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث کو اسی طرح قرآن سے متعارض کہہ کر رد کر دیا ہے جس طرح سابقہ حدیث: ’’گھر والوں کے رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔‘‘ کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد کر دیا ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ نہ پہلی حدیث قرآن کے خلاف ہے، جیسا کہ تفصیل سے بیان کر چکا ہوں اور نہ ہی یہ حدیث اس قرآنی آیت سے
Flag Counter