Maktaba Wahhabi

471 - 531
جیسا کہ فقہائے احناف نے کیا ہے ، پھر حدیث کے راوی تمام صحابہ عرب تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہی کی زبان بولتے تھے اور شرعی احکام حد درجہ آسان زبان میں سمجھاتے تھے ، اس لیے ان کو سن کر یاد کر لینے کے لیے ، ’’تفقہ‘‘ کی من گھڑت صفت سے موصوف ہونے کی قطعا ضرورت نہیں تھی، آخر قرآن کے راوی بھی تو وہی ہیں جس کی زبان اپنی فصاحت و بلاغت اور طرزِ استدلال میں معجزانہ ہے ، پھر قرآن کے راویوں کے لیے یہ شرط کیوں نہیں قرار دی گئی ؟ رہی مغز و روح کی بات تو اگر اس کو عام قاعدہ بنا لیا جائے تو پھر پورا دین کھیل اور بازیچہ اطفال بن جائے گا ، بلکہ بنا لیا گیا ہے اور اس مغز و روح کو نئی نئی عبادتیں اور اوراد و اذکار ایجاد کرنے کا معیار بنا لیا گیا ہے ۔ ۲۔ اصلاحی صاحب نے تشہد کے مختلف صیغوں پر آمین بالجہر اور آمین بالسر اور ہاتھ باندھ کر اور ہاتھ چھوڑ کرنماز پڑھنے کو جو قیاس کیا ہے وہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ آمین بالجہر منصوص ہے اور آمین بالسر غیر منصوص اور ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا احادیث سے ثابت ہے ، جبکہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ یاد رہے کہ تشہد کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درود ابراہیمی کے مختلف صیغے بھی صحابہ کرام کو سکھائے ہیں ، اسی طرح نماز کے اندر اور اس کے باہر کے بہت سے اوراد و اذکار بھی آپ نے صحابہ کرام کو سکھائے ہیں جن میں سے ہر ایک پر عمل سنت میں داخل ہے ، اور ان میں سے کسی کو راجح اور کسی کو مرجوح قرار دینا درست نہیں ہے ۔ حدیث سے خوف زدگی: مولانا امین احسن اصلاحی کو حدیث یا سنت سے خوف کی حد تک تحفظات تھے، وہ احادیث اور حدیث کے شرعی مقام و مرتبے سے متعلق علمائے حدیث کے اقوال کو ناقد نہیں معترض کی حیثیت سے پڑھتے تھے صحیح بخاری کی بعض حدیثوں پر ان کے اعتراضات سے میری اس بات کی تصدیق ہوتی ہے جس کا میں نے گزشتہ صفحات میں مفصل علمی جواب دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حدیث یا سنت کے شرعی مقام کو خود اپنی کتاب میں ایک سے زیادہ موقع پر اور مختلف اسلوبوں میں واضح فرما دیا ہے جس کو علمائے حدیث نے بھی اپنی کتابوں میں بیان فرما دیا ہے ان میں سے اگر بعض علماء کے اقوال میں کلام کی گنجائش تھی تو اس تناظر میں ان کی مناسب توجیہہ کی جا سکتی تھی کہ یہ تعبیر کی غلطی ہو سکتی ہے ، مگر اصلاحی صاحب نے ان اقوال کو قرآن و حدیث وسنت کے بارے میں غیر متوازن خیالات کا نام دے دیا اور لگے ان کی تاریخ بیان کرنے ، اور ان کے قلم نے یہ زہر اگلنا شروع کر دیا کہ ’’حدیث کی روز افزوں مقبولیت کی وجہ سے جب لوگوں نے بلا تحقیق حدیثیں بیان کرنا شروع کر دیں تو ضعیف احادیث کے توغل نے بعض محتاط لوگوں کے اندر حدیث بیزاری کا رجحان پیدا کر دیا ‘‘ (ص ۳۶) اس سے قبل انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’انکار حدیث کے فتنہ کی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اصلا یہ فتنہ چند الجھن پیدا کرنے والی حدیثوں سے اٹھا ‘‘ (ص۳۰) توعرض ہے کی یہ دونوں باتیں حقیقت
Flag Counter