Maktaba Wahhabi

403 - 531
یہ دعوی کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کو تھامے رہنے اور پکڑے رہنے میں کسی چیز کا سہارا لینے کا محتاج نہیں ہے اور پھر مثال میں سورۂ رعد اور سورۂ فاطر کی آیتیں پیش کی ہیں تو یہ دراصل کتمان حق کی نہایت مذموم حرکت ہے اور کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان قرآن پاک اور احادیث میں مذکور اللہ تعالیٰ کی صفات کو جوں کا توں مان کر اور ان سے اللہ تعالیٰ کے موصوف ہونے کا اقرار و اعتراف کر کے اپنے اس عقیدے کا اظہار نہیں کرتا کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کا محتاج ہے، بلکہ اپنے اس ایمان کا اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جن آیتوں میں اپنی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان کو ان کے حقیقی معنوں میں لینا اس کتاب پر اللہ تعالیٰ کے کلام ہونے کی حیثیت سے ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات کے بارے میں اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ، چہرہ اور نفس… ذات… ثابت ہے، جیسا کہ اس نے قرآن میں ید، وجہ اور نفس کا ذکر کیا ہے یہ کیفیت کے بغیر اللہ کی صفات ہیں ، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے ہاتھ سے اس کی قدرت اور نعمت مراد ہے، کیونکہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کو باطل قرار دینا لازم آتا ہے۔[1] ۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی عالم کی باتیں سننے کے بعد سورۂ زمر کی جو آیت تلاوت فرمائی تھی وہ اس کی باتوں کی تائید اور تصدیق میں تلاوت فرمائی تھی، کیونکہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی جو صفت مجملاً بیان ہوئی ہے وہ یہودی عالم نے تفصیلاً بیان کی تھی اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک صحیح حدیث میں قرآنی آیت سے مشابہ تعبیر میں یہ بات بیان ہوئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ((یقبض اللّٰہ الأرض ویطوی السموات بیمینہ، ثم یقول: أنا الملک، أین ملوک الأرض)) [2] ’’اللہ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اپنی عظیم قدرت کے اقرار و اعتراف کو اپنی حقیقی قدر دانی کی ایک علامت قرار دیا ہے اور آیت کا تعلق مشرکین سے ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کی ناقدری کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی عالم کی باتیں سن کر یہ آیت مبارکہ اس کی باتوں کی تصدیق میں پڑھی تھی، کیونکہ اس نے جن باتوں کی خبر دی تھی ان کی قرآن و حدیث سے تائید ہوتی ہے۔ اگر ان میں کوئی فرق ہے تو صرف اجمال اور تفصیل کا۔
Flag Counter