Maktaba Wahhabi

407 - 531
مجرم کیوں اور تعطیل کا مرتکب مجرم کیوں نہیں ؟ اگر تشبیہ کا شمار آپ کے بقول مسلمانوں کے مذاہب میں نہیں ہوتا تو اہل سنت و جماعت کے نزدیک بالاتفاق تعطیل کا شمار بھی مسلمانوں کے مذاہب میں نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے اپنی صفات سے عاری ہونے کا عقیدہ اپنی سنگینی میں تشبیہ سے کچھ کم نہیں ، بلکہ بڑھا ہوا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور مخلوق کی صفات میں کم از کم لفظی اشتراک تو موجود ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات کے انکار یا تعطیل سے تو ایسے الہ اور رب کا تصور پیدا ہوتا ہے جو ہر طرح کی صفات سے عاری اور مجرد ہے اور یہ چیز خود مخلوق کے لیے بھی عیب اور نقص ہے!! ۳۔ خطابی کا دعویٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی عالم کی بات پر ہنسنا رضا اور عدم رضا دونوں پر محمول کیا جا سکتا ہے‘‘ تو یہ محض ان کی ھٹ دھرمی اور عناد ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی بات سن کر قرآن پاک کی ایک ایسی آیت پڑھنا جس میں اللہ تعالیٰ کے لیے مٹھی اور ہاتھ کا اثبات ہے اس طرح قرآنی آیت یہودی عالم کی خبر میں مذکور انگلی کی مؤید قرار پائی لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح ہنس پڑنا کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے یہودی عالم کی خبر پر مکمل رضا مندی کے سوا کوئی اور احتمال نہیں رکھتا، اور راوی کا یہ قول کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہودی کی بات کو سچ مان کر ہنسے تھے‘‘ امر واقعہ کا ترجمان ہے، اس کا وہم و گمان نہیں ، جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے، کیونکہ اولاً تو راوی… عبد اللہ بن مسعود… واقعہ کے شاہد تھے اور خطابی سے زیادہ ان کو یہ معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ ھنسی آپ کی رضا اور تصدیق کی علامت تھی یا آپ کی عدم رضا اور انکار کی، رہا اس لفظ ’’تصدیقا‘‘ کا دوسرے طرق میں عدم ذکر تو اس سے صورت واقعہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ ثقہ راوی کا کوئی اضافہ مقبول ہے ثانیا: جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سورۂ زمر کی آیت پڑھنا یہودی کی خبر کی تائید کے سوا کوئی اور مفہوم نہیں رکھتا ھٹ دھرمی اور عناد کی بات اور ہے۔ قرطبی کا خلط مبحث: ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی کا اسلامی علم میں ایک خاص مقام ہے قرآن پاک کی تفسیر اور قرآنی آیات سے مسائل و احکام کے استنباط و استخراج کے موضوع پر ان کی کتاب: ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ ان کی وسیع و گہری معلومات، فہم قرآن، اور ان کے معتدل مزاج کی ترجمان ہے، لیکن تقلید سے وابستگی، معتزلہ اور متکلمین سے یک گونہ تعلق اور ان کے طرز استدلال کی پیروی اور پھر ارباب تصوف کی عقیدت نے ان کی بہت سی خوبیوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ان کے غور و تدبر اور شرعی نصوص پر ان کی نظر میں سطحیت آ گئی ہے اور اسلامی مزاج سے ناآشنا فرقوں کو ساتھ لے کر چلنے کی وجہ سے ان کے افکار و نظریات اور اقوال میں تضادات کی بھرمار ہو گئی ہے۔ میں نے ان کی جو یہ مختصر تصویر پیش کی ہے وہ اس زیر بحث حدیث کی ان کی تشریح و تفہیم میں کھل کر سامنے آ گئی ہے میں فتح الباری سے ان کی عبارت کا مکمل
Flag Counter