Maktaba Wahhabi

496 - 531
پاک کی مختلف سورتوں میں مذکور ہے ۔ سجدہ آدم عبادت تھا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس کو آدم علیہ السلام کا جو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا وہ سجدہ ہی تھا یعنی پیشانی کو زمین پر رکھ دینا اور ’’غیر اللہ‘‘ کا سجدہ ، لیکن اللہ کے حکم سے ہونے کی وجہ سے عبادت تھا اور فرض تھا بعض مفسرین نے اس سجدے کے بارے میں جن اشکالات کا ذکر کیا ہے وہ بے محل اور ناقابل التفات ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کا بجا لانا فرض ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے کسی فعل کے بارے میں جواب دہ نہیں ہے :﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْئَلُوْنَ﴾ (الانبیاء: ۲۳) اس جملہ معترضہ کے بعد اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے عرض گزار ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لاتے ہوئے تمام فرشتے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے ،سوائے ابلیس کے جس نے ازراہ تکبر و بڑائی سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾ (سورۂ ص :۷۵) ’’جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے اس کو سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے روکا ۔‘‘ اس کا جواب ابلیس نے یوں دیا: ﴿قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَارٍ وَ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ ﴾ ’’کہا : میں اس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ۔‘‘ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’عقل کے ذریعہ وحی کی مخالفت کرنا شیخ ابومرہ کی میراث ہے ،وہ پہلا شخص ہے جس نے عقل کے ذریعہ سمع کی مخالفت کی اور عقل کو سمع پر ترجیح دی … اس نے کہا : میں اس سے بہتر ہوں ‘‘ یہ اس کے ’’عقلی قیاس‘‘ کا مقدمہ صغریٰ ہے اور مقدمہ کبریٰ محذوف ہے یعنی : الا فضل لا یسجد للمفضول افضل مفضول کو سجدہ نہیں کرتا ۔ ابلیس کا دوسرا مقدمہ ایسا ہے گویا وہ معلوم و مسلم ہو ، یعنی : جو آگ سے پیدا کیا گیا ہے وہ مٹی سے پیداکیے جانے والے سے بہتر ہے ۔ اس کا پہلا قیاس یہ تھا کہ میں ا س سے بہتر ہوں اور مخلوقات میں جو بہتر ہو وہ اپنے سے کمتر کو سجدہ نہیں کرتا۔ اس کا دوسرا قیاس یہ ہے کہ : تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے اور آگ سے پیدا کیا جانے والا مٹی سے پیدا کیے جانے والے سے افضل ہے ۔ اس عقلی قیاس کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’ میں اس سے بہتر ہوں اور پہلے قیاس کا نتیجہ یہ ہے کہ: ’’میرے لیے یہ مناسب نہیں کہ میں اس کو سجدہ کروں ‘‘
Flag Counter