Maktaba Wahhabi

375 - 531
لوگ تھے جو حدیث لکھا بھی کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے، مگر وہ ایسا احتیاط مزید کے طور پر کرتے تھے، کیونکہ حفاظت حدیث اور اس کی تبلیغ و ترویج کا فریضہ اس کے بغیر سینوں میں اسے محفوظ کر کے بحسن و خوبی ادا ہو رہا تھا، اور ایک دو نہیں ، سیکڑوں نہیں ، بلکہ ہزاروں تابعین اس کام میں لگے ہوئے تھے جن کی تعداد میں مرور زمانہ کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا تھا، اور جن لوگوں کو کتابت حدیث سے کوئی دلچسپی نہیں تھی یا جو اس کے جواز کے حق میں نہیں تھے تو ان کے اس طرز عمل کے پیچھے یہ احساس کارفرما تھا کہ اس سے حافظہ متاثر ہو گا ، جو قرآن و حدیث دونوں کی حفاظت کا بنیادی ذریعہ تھا۔ ایک نیا انکشاف: خوارج اور معتزلہ کے دور سے اب تک منکرین حدیث یہ تاثر دیتے آ رہے ہیں کہ حدیث کا شرعی مقام یا اس کی تشریعی حیثیت ثانوی ہے اولاً تو قابل اعتبار احادیث متواترہ ہیں اور احادیث آحاد کا اگر کوئی اعتبار ہے تو اس حد تک کہ قرآن وحدیث متواتر میں جو خبریں دی گئی ہیں یا جو احکام بیان کیے گئے ہیں اگر احادیث آحاد ان کے مطابق ہیں اور ان میں کوئی اضافی حکم نہیں بیان ہوا ہے تو قابل اخذ و اعتبار ہیں ورنہ نہیں ۔ ثانیاً یہ منکرین یہ دعوی بھی کرتے نہیں تھکتے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے نزدیک بھی حدیث کا یہی مقام تھا، البتہ وہ اپنے اس دعویٰ کا برملا اظہار نہیں کرتے اور حدیث کی تشریعی حیثیت کو کھل کر نشانہ بنانے کے بجائے بین بین کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔ متاخرین علمائے احناف کا نظریۂ حدیث معتزلہ ہی کے نظریہ حدیث پر مبنی ہے؛ ما تریدی اہل کلام جو عقائد میں احناف کے پیشوا مانے جاتے ہیں اور برصغیر کے احناف عقائد میں جن سے انتساب کو صحت عقیدہ کی بنیادی شرط تصور کرتے ہیں حدیث کی تشریعی حیثیت کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر وہی ہے جو معتزلہ کا ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی مشاہیر علمائے دیوبند میں سے ایک تھے وہ ۱۸۹۲ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۵۶ھ میں وفات پائی ان کی کتاب ’’تدوین حدیث‘‘ کا حنفی مکتبۂ فکر اور دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں میں یکساں ذکر جمیل رہتا ہے اور اس کو حدیث کے دفاع اور منکرین حدیث کے رد کے حوالہ سے ایک گرانقدر اور قابل ستائش کارنامہ تصور کیا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اس کتاب کو خدمت حدیث میں شمار کرتے ہیں وہ بہت بڑی خود فریبی میں مبتلا ہیں ، اگرچہ اس میں کام کی باتیں بھی ہیں ۔ ’’تدوین حدیث‘‘ دراصل خدمت حدیث کے پردے میں معتزلہ کے نظریۂ حدیث کی ترویج کی ایک لاحاصل کوشش سے عبارت ہے۔ اس وقت اس کتاب پر تبصرہ میرا موضوع بحث نہیں ہے، میں نے یہ ذکر تو اس لیے چھیڑا ہے تاکہ اپنے قارئین کو یہ دکھا سکوں کہ اس کتاب کے مصنف نے اس میں حدیث کے شرعی مقام سے متعلق دو ایسے دعوے
Flag Counter