Maktaba Wahhabi

259 - 531
(۳)… تیسرے مرحلے میں انھوں نے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کسی کیفیت اور مخلوق کی مشابہت سے پاک اپنے حقیقی مفہوم میں ہیں یہی اسلاف کا عقیدہ ہے اور اسی کو امام اشعری نے اپنی آخری کتاب ’’الإبانۃ‘‘ میں بیان کیا ہے۔ (۱) تقدیر: متکلمین اشاعرہ نے تقدیر کے مسئلہ میں جبریہ اور قدریہ کے عقائد میں تطبیق دینے یا ان کے بین بین ایک تیسرا نظریہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کا نام انہوں نے ’’کسب‘‘ دیا ہے اپنے انجام کے اعتبار سے یہ جبر اور بے اختیار ہونے کے مانند ہے یہ نظریہ بندے کی قدرت اور تاثیر کی قطعی نفی کرتا ہے۔ (۲) توحید: اشاعرہ کے نزدیک توحید سے مراد دوئی، تعدد، ٹکڑے ٹکڑے کرنے، ترکیب دینے اور تجزیہ کرنے کی نفی ہے۔ اللہ کے ایک ہونے کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ دو نہیں ہے، کئی نہیں ہے، اس کو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، وہ متعدد اجزاء سے مرکب نہیں اور اس کو مختلف اجزا میں بانٹا نہیں جا سکتا، جبکہ کتاب وسنت کے مطابق جس توحید کی دعوت کے لیے انبیاء اور رسولوں کو بھیجا گیا تھا وہ تین اجزاء پر مشتمل ہے: (۱) توحید ربوبیت: یعنی اس بات پر ایمان کہ تنہا اللہ تعالیٰ ہی خالق، روزی رساں ، اپنی تمام مخلوقات کے امور کی تدبیر کرنے والا، دنیا اور آخرت میں ان کے تمام معاملات میں تنہا صاحب تصرف ہے اور ان افعال اور اس کے دوسرے افعال میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ (۲) توحید اسماء وصفات: یعنی اس بات پر ایمان کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں اللہ تعالیٰ کے جو اسماء اور صفات بیان ہوئی ہیں وہ کسی تحریف و تبدیلی، اللہ کو ان سے غیر موصوف قرار دینے، ان کی کیفیت بیان کرنے اور مخلوق کی صفات کے مانند ہونے سے پاک اس کی ذات کے شایان شان ثابت ہیں ۔ (۳) توحید الوہیت: اس بات پر ایمان کہ تنہا اللہ تعالیٰ ہی مستحق عبادت ہے، اس کے ما سوا کسی بھی چیز کی عبادت اور عبادت کے قبیل کا کوئی بھی عمل باطل ہے۔ یہی وہ توحید ہے جس کا دل میں اعتقاد، زبان سے اقرار اور اس کے مطابق عمل کر کے کوئی انسان مسلمان بنتا ہے اور اسی توحید کی ترجمانی کلمہ لا الٰہ الا اللہ، اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے سے کی جاتی ہے۔ اشاعرہ کی کتابوں میں مذکورہ بالا توحید کا کوئی ذکر نہیں ملتا اسی طرح اشاعرہ کے ہم عقیدہ فقہاء اور صوفیاء کی کتابیں بھی اس
Flag Counter